تتوبودھنی سبھا (مجلس جویائے حق) بنگالی دانشوروں کا ایک حلقہ تھا جو 6 اکتوبر 1839ء کو کلکتہ میں شروع ہوا۔ یہ حلقہ دراصل برہمو سماج سے علاحدہ ہو کر بننے والا ایک گروپ تھا۔ اس کے بانی دیویندر ناتھ ٹیگور تھے جو دوارکاناتھ ٹیگور کے بڑے بیٹے اور رویندر ناتھ ٹیگور کے والد تھے۔ سنہ 1859ء میں تتوبودھنی سبھا پھر سے برہمو سماج میں ضم ہو گئی۔

تتوبودھنی کا عرصہ

ترمیم

6 اکتوبر 1839ء کو دویندر ناتھ ٹیگور نے "تتورنجنی سبھا" نام سے ایک مجلس کی بنیاد رکھی جسے جلد ہی تتوبودھنی سبھا کر دیا گیا۔ ابتدا میں یہ مجلس محض ٹیگور خاندان تک محدود تھی تاہم دو برس میں اس کے ارکان کی تعداد پانسو افراد تک جا پہنچی۔ سنہ 1840ء میں دیویندر ناتھ نے مجلس کی جانب سے کتھا اپنشد کا بنگالی ترجمہ شائع کیا۔[1]

اس مجلس کے اولین ارکان میں ہندو تحریک اصلاح اور بنگالی نشاۃ ثانیہ کی دو دیو قامت ہستیاں اکشے کمار دت اور ایشور چندر ودیا ساگر بھی شامل تھیں۔[2]

مقاصد

ترمیم

مجلس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ویدانت اور اپنشدوں پر مبنی ہندو مت کے انسان دوست اور زیادہ عقلی روپ کی تبلیغ کی جائے۔ کلکتہ میں مسیحی مبلغین کی روز افزوں کاوشوں کا نتیجہ تھا کہ اوید ویدانت کی کلاسیکی شاخ کو غیر اخلاقی اور نفس کش خیال کیا جانے لگا تھا۔ چنانچہ تتوبودھنی سبھا نے اپنے ارکان اور نظریات کو تنقید سے بچانے کے لیے اس سے دور ہی رکھا۔

چنانچہ اس مجلس کی عقلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سبھا کے ارکان کا نظریہ یہ تھا، کائنات خدا کی تخلیق ہے اور اس میں موجود ہر شے اس ذات کی معرفت کا ذریعہ ہے اور یہی ہمارا مقصد تخلیق ہے۔ نیز مادی سرمایہ اگر درست ہاتھوں میں نیک نیت کے ساتھ ہو تو نہ صرف یہ کہ بہتر بلکہ معاشرے کی ضرورت ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. 2007: Brian Hatcher "Journal of American Academy of Religion"
  2. "Brahmo Samaj and the making of modern India, David Kopf, Princeton University press", pp 43-57

بیرونی روابط

ترمیم