بنگالی نشاۃ ثانیہ
بنگالی نشاۃ ثانیہ ((بنگالی: বাংলার নবজাগরণ)؛ بانگلار نب جاگرن) ایک ثقافتی، سماجی، علمی اور فنی تحریک تھی جو برطانوی راج کے عہد میں برصغیر ہند کے خطہ بنگال میں برپا ہوئی۔ یہ تحریک انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ بنگالی نشاۃ ثانیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ راجا رام موہن رائے (1772ء – 1833ء) سے شروع ہوئی اور رابندر ناتھ ٹیگور (1861ء – 1941ء) پر ختم ہو گئی۔ تاہم اس عرصے کے بعد بھی اس تحریک کے بہت سے حامی مثلاً ستیہ جیت رائے (1921ء – 1992ء) موجود رہے جن کی ذات میں منفرد علمیت و تخلیقیت کے مخصوص گوشے مجتمع تھے۔[1]
انیسویں صدی عیسوی کا بنگال مذہبی و سماجی مصلحین، دانشور، ادبا، صحافی، محب وطن مقررین اور سائنس دانوں کی کہکشاں بنا ہوا تھا۔ ان تمام کا مقصد یہ تھا کہ بنگال کو نئی سمت عطا کریں اور اسے عہد وسطی سے نکال کر جدید دور سے متعارف کرائیں۔[2]
پس منظر
ترمیماس عہد کے بنگال میں ذہنی و علمی بیداری پیدا ہو رہی تھی جو بہت حد تک سولہویں صدی کے یورپ کی بیداری سے مشابہ تھی، تاہم اس وقت یورپی قوم کو کسی غیر ملکی استعمار کا سامنا نہیں تھا۔ بنگال میں پیدا ہونے والی اس لہر نے خواتین، شادی بیاہ، جہیز، ذات پات اور مذہب سے متعلق قدامت پرست سوچ پر سوال اٹھائے۔ اس دوران میں پیدا ہونے والی ابتدائی تحریکوں میں ینگ بنگال تحریک قابل ذکر ہے جس نے عقلیت اور الحاد کو فروغ دیا۔
دوسری جانب بنگال کی معروف سماجی مذہبی تنظیم برہمو سماج پروان چڑھ رہی تھی، اس تنظیم کے اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بنگالی نشاۃ ثانیہ کے بہت سے رہنما اسی تنظیم کے پیروکار تھے۔[3] ابتدائی برسوں میں بقیہ معاشرے کی طرح برہمو سماج بھی اس جاگیردارانہ استعماری عہد میں آزاد ہندوستان کا تصویر پیش نہ کر سکی کیونکہ وہ یورپی روشن خیالی سے متاثر تھی، تاہم اس نے اپنی علمی بنیادیں اپنشدوں سے اخذ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے یہاں ہندو مت کا جو تصور ہے اس میں ستی اور تعداد ازدواج جیسی رسمیں نہیں پائی جاتیں، جبکہ اس عہد تک یہ رسمیں ہندو معاشرے کی سماجی زندگی میں رچ بس گئی تھیں۔ نیز وہ ہندومت کو غیر شخصی اور توحیدی مذہب باور کراتے ہیں۔ یہ تصور ہندومت کی اس تکثیری اور چند رخی فطرت سے یکسر مختلف تھا جو اس دور میں رائج تھی۔
اہم شخصیات
ترمیمسائنس اور ٹیکنالوجی
ترمیمنشاۃ ثانیہ کے دوران میں بنگال میں سائنںس میں بھی کئی سائنس دانوں کی طرف سے پیش قدمی ہو رہی تھی۔ ستیندر ناتھ بوس، انیل کمار گائین جگدیش چندر بوس اور میگھ ناد ساہا جامع العلوم: ماہر طبیعیات، ماہر حیاتیات، نباتیات، آثاریات اور مصنف سائنس فکشن تھا۔[4]
فنون اور ادب
ترمیممذہب اور روحانیت
ترمیمادارے
ترمیم- ایشیاٹک سوسائٹی (اندازہ 1784)
- فورٹ ولیم کالج (1800)
- سنسکرت کالج (1824)
- پریزیڈنسی یونیورسٹی، کولکاتا (1817ء)
- کلکتہ یونیورسٹی (1857)
- ڈھاکہ یونیورسٹی (1921)
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ History of the Bengali-speaking People by Nitish Sengupta, p 211, UBS Publishers' Distributors Pvt. Ltd. آئی ایس بی این 81-7476-355-4۔
- ↑ Sumit Sarkar, "Calcutta and the Bengal Renaissance"، in Calcutta, the Living City ed. Sukanta Chaudhuri, Vol I, p. 95.
- ↑ "Reform and Education: Young Bengal & Derozio"، Bengalinet.com
- ↑ A versatile genius آرکائیو شدہ 3 فروری 2009 بذریعہ وے بیک مشین، Frontline 21 (24)، 2004.
مزید پڑھیے
ترمیم- Pranab Chatterjee (2010)۔ A Story of Ambivalent Modernization in Bangladesh and West Bengal: The Rise and Fall of Bengali Elitism in South Asia۔ Peter Lang۔ ISBN 978-1-4331-0820-4
- Subrata Dasgupta (2005)۔ Twilight of the Bengal renaissance: R.K. Dasgupta & his quest for a world mind۔ the University of California: Dey's Publishing
- Subrata Dasgupta (2009)۔ The Bengal Renaissance۔ Permanent Black۔ ISBN 978-8178242798
- Subrata Dasgupta (2011)۔ Awakening: The Story of the Bengal Renaissance۔ Random House India۔ ISBN 978-8184001839
- Niranjan Dhar (1977)۔ Vedanta and the Bengal Renaissance۔ the University of Michigan: Minerva Associates۔ ISBN 978-0-88386-837-9
- Fraser, Bashabi edited Special Issue on Rabindranath Tagore, Literary Compass، Wiley Publications. Volume 12, Issue 5, مئی 2015. See Fraser's Introduction pp. 161–72. آئی ایس ایس این 1741-4113۔
- Abulfazal M. Fazle Kabir (2011)۔ The Libraries of Bengal, 1700–1947: The Story of Bengali Renaissance۔ Promilla & Co. Publishers۔ ISBN 978-8185002071
- David Kopf (1969)۔ British Orientalism and the Bengal Renaissance۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-00665-2
- Raj Kumar (2003)۔ Essays on Indian Renaissance۔ Discovery Publishing House۔ ISBN 978-81-7141-689-9
- P. J. Marshall (2006)۔ Bengal: The British Bridgehead: Eastern India 1740–1828 (The New Cambridge History of India)۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ISBN 978-0-521-02822-6
- Sitansu Sekhar Mittra (2001)۔ Bengal's Renaissance۔ Academic Publishers۔ ISBN 9788187504184
- Bipin Chandra Pal، Jagannātha Cakrabartī (1977)۔ Studies in the Bengal renaissance۔ the University of California: National Council of Education, Bengal
- Sastri, Sivanath. A History of the Renaissance in Bengal: Ramtanu Lahiri, Brahman and Reformer, London: Swan, Sonnenschein (1903); Kolkata: Renaissance (2002)۔
- Sibnath Sastri (2008)۔ Ramtanu Lahiri, Brahman and Reformer: A History of the Renaissance in Bengal۔ BiblioLife۔ ISBN 978-0-559-84106-4
- Amit Sen (2011)۔ Notes on the Bengal Renaissance۔ Nabu Press۔ ISBN 978-1-179-50139-0
- Robert Travers (2007)۔ Ideology and Empire in Eighteenth-Century India: The British in Bengal۔ کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ ISBN 978-0-521-05968-8
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر بنگالی نشاۃ ثانیہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- "The Tagores and Society"، Rabindra Bharati Museum Kolkataآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ rabindrabharatiuniversity.net (Error: unknown archive URL)
- David Copf (2012)۔ "Bengal Renaissance"۔ $1 میں Sirajul Islam، Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh