ایشور چندر ودیا ساگر (26 ستمبر 1820ء – 29 جولائی 1891ء) (پیدائشی نام: ایشور چندر بندوپادھیائے) برطانوی ہند کی ایک انتہائی مشہور و موثر بنگالی شخصیت جو جامع العلوم کی حیثیت سے معروف تھے۔ بنگالی نشاۃ ثانیہ میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے۔[1][2] وہ ایک فلسفی، دانشور، معلم، مصنف، مترجم، طابع، ناشر، مصلح اور مخیر تھے۔ بنگالی نثر کی سادہ کاری اور اس کی تجدید کے لیے ایشور چندر کی کوششیں قابل قدر ہیں۔ نیز انھوں نے برطانوی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ بیواؤں کی دوسری شادی کا قانون منظور کرے۔[3]

ایشور چندر ودیاساگر
ایشور چندر ودیاساگر
پیدائشایشور چندر بندھوپادھیائے
26 ستمبر 1820(1820-09-26)
برسنگھا، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند
(موجودہ مغربی بنگال، بھارت)
وفات29 جولائی 1891(1891-70-29) (عمر  70 سال)
کلکتہ، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی ہند
(موجودہ کولکاتا، مغربی بنگال، بھارت)
پیشہمصنف، معلم، فلسفی، مترجم، طابع، ناشر، مصلح، مخیر
زبانبنگلہ
قومیتبرطانوی ہندوستانی
مادر علمیسنسکرت کالج (1829–1839)
ادبی تحریکبنگالی نشاۃ ثانیہ
شریک حیاتدنامنی دیوی
اولادناراین چندر بندھوپادھیائے

انھیں سنسکرت کالج، کلکتہ نے جہاں سے انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی، سنسکرت مطالعات اور سنسکرت فلسفے میں عمدہ کارکردگی کی بنا پر ”ودیا ساگر“ کا خطاب دیا۔ یہ سنسکرت زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے، ودیا کے معنی علم اور ساگر کے معنی سمندر کے ہیں، اس لحاظ سے ودیا ساگر کو اردو میں بحر العلوم کہا جائے گا۔ مشہور بنگالی ریاضی دان انل کمار گائین نے ایشور چندر کے اعزاز میں ان کے نام پر ودیا ساگر یونیورسٹی قائم کی تھی۔[4]

سنہ 2004ء میں بی بی سی نے ایک سروے کیا جس کا عنوان تھا عظیم بنگالی شخصیتیں۔ اس سروے میں ودیا ساگر کا نواں نمبر تھا۔[5][6][7]

سوانح ترمیم

ایشور چندر بندھوپادھیائے ایک ہندو برہمن خاندان میں 26 ستمبر 1820ء کو پچھم مدناپور ضلع کی ذیلی تقسیم گھاٹل میں واقع برسنگھا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ٹھاکر داس بندھوپادھیائے اور والدہ کا نام بھگوتی دیوی تھا۔ چھ برس کی عمر میں ایشور چندر کلکتہ چلے گئے جہاں وہ بڑا بازار میں بھاگوت چرن کے گھر رہا کرتے تھے، اس گھر میں ان کے والد ٹھاکر داس نے بھی برسوں قیام کیا تھا۔ ایشور چندر بہت جلد بھاگوت کے خاندان سے گھل مل گئے۔ بھاگوت کی سب سے چھوٹی بیٹی رائے مونی کی ممتا بھری محبت نے انھیں بہت زیادہ متاثر کیا اور ہندوستان میں خواتین کی حالت زار کی اصلاح کے تئیں ان کے انقلابی کاموں میں رائے مونی کا زبردست تاثر صاف جھلکتا ہے۔

گھر میں روشنی کا بندوبست نہ ہونے کے باوجود انھیں علم حاصل کرنے کا اتنا زیادہ شوق تھا کہ وہ سڑک پر کھمبے کی روشنی میں پڑھا کرتے تھے۔[8] انھوں نے تمام امتحانات میں نمایاں انداز سے کامیابی حاصل کی۔ انھیں تعلیم کے دوران میں کئی مرتبہ وظائف بھی دیے گئے۔ ایشور چندر نے اپنی اور اپنے خاندان کی مدد کے لیے جوراشنکو میں جز وقتی استاد کے طور پر بھی ملازمت کی۔ ایشور چندر نے پھر سنسکرت کالج میں داخلہ لیا جو کلکتہ میں واقع ہے اور بارہ سال کی تعلیم کے بعد فارغ التحصیل ہوئے اور سنسکرت کی گرائمر، ادب، لہجے، ویدانت، اسمرتی اور فلکیات کی تعلیم مکمل کی۔[9] اُس دور کی روایت کے مطابق ایشور چندر چودہ سال کی عمر میں ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ ان کی بیوی کا نام دینا مانی دیوی تھا۔ نرائن چندر بندو پادھیا ان کی واحد اولاد تھی۔

1839ء میں ایشور چندر نے وکالت کا امتحان پاس کر لیا۔ 1841ء میں 21 سال کی عمر میں انھوں نے فورٹ ولیم کالج میں شمولیت اختیار کی اور شعبہ سنسکرت کے صدر کلرک بنے۔[10]

ودیا ساگر نے باریشا ہائی اسکول کو 1856 میں کلکتہ میں کھولا۔

بیواؤں کی شادی ترمیم

ودیاساگر نے ہندوستان میں خواتین کی بہتری کے لیے بہت کام کیا اور ان کا زیادہ تر زور ان کے آبائی علاقے بنگال پر مرکوز تھا۔ دیگر مصلحین کے برعکس آپ نے معاشرے کے اندر سے بہتری لانے کی کوشش کی۔

اکشے کمار دتہ جیسے لوگوں کی مدد سے ودیاساگر نے ہندو معاشرت میں بیواؤں کی دوسری شادی کی روایت قائم کی۔ کولن برہمن نظام میں مردوں کو عمر رسیدہ اور بعض اوقات بسترِ مرگ پر پڑے بندوں کو بھی ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہوتی تھی تاکہ وہ کم عمر، بعض اوقات نابالغ لڑکیوں سے بھی شادی کر کے ان کے والدین کو اس بدنامی سے بچا سکیں کہ ان کی بچی ان کے گھر ہی جوان ہوئی ہے۔ شادی کے بعد اور عموماً بیوہ ہونے کے بعد یہ لڑکیاں اپنے والدین کے گھر ہی چھوڑی دی جاتی تھیں۔ ایسی لڑکیوں اور خواتین کے نصیب میں اکثر فاقے، گھر کے سارے کام کاج کا بوجھ اور گھر سے باہر نکلنے پر سخت پابندی ہوتی تھی تاکہ انھیں کوئی اجنبی نہ دیکھ سکے۔

ایسے برے سلوک کی وجہ سے اکثر ایسی لڑکیاں گھر سے بھاگ کر طوائف بن جاتی تھیں تاکہ اپنا گزارا چلا سکیں۔ شومئی قسمت سے شہر کی معاشی خوش حالی اور شان و شوکت کے پیچھے ایسی کئی خواتین کا اہم کردار تھا جو اپنے گھر سے بھاگ کر اس پیشے میں داخل ہوئیں۔اندازہ ہ کہ کلکتہ میں 1853 میں کل 12،718 طوائفیں تھیں۔ بہت سی عورتیں بیوہ ہونے کے بعد سر کے بال مونڈ کر سفید ساڑھی زیبِ تن کر لیتی تھیں تاکہ مردوں کی بری نظروں سے بچ سکیں۔ ان کی قابلِ رحم حالت کی وجہ سے ودیاسار کو تبدیلی کا خیال آیا۔

بنگالی حروفِ تہجی اور زبان کی تشکیلِ نو ترمیم

آپ نے بنگلہ حروفِ تہجی کی اصلاح کی اور آسان بنگلہ حروف متعارف کرائے۔ اس کے تحت کل 12 واؤل اور چالیس عام حروف بنے۔ اس طرح سنسکرت کے کچھ حروف اور علامات نکل گئیں اور اس کی جگہ کچھ نئے حروف آ گئے جو اعراب کا کام دینے لگے۔ اس کے علاوہ انھوں نے بنگلہ اور سنسکرت ادب کے لیے بورنو پوریچوئے (حروف کی پہچان) نامی کتاب لکھی جو بہت کارآمد سمجھی جاتی ہے۔

ودیا ساگر کی تصانیف ترمیم

ودیا ساگر کی تصانیف حسب ذیل ہے:

  • بیتال پنچابنستی (1847)
  • بنگلہ اتہاس (1848)
  • جیبانچارت (1850)
  • بدھادوئے (1851)
  • اوپاکرمانیکا (1851)
  • بورنو پوریچوئے (1854)
  • کوٹھا مالا (1860)
  • ستار بونوباس (1860)
  • بنگالی اخبار – شوم پرکاش نے 1858ء میں اشاعت شروع کی۔

رام کرشن سے ملاقات ترمیم

ودیا ساگر اگرچہ بنیاد پرست ہندو برہمن خاندان سے تھے مگر انھوں نے اپنی ظاہری شکل و صورت بہت آزادانہ رکھی۔ اس کے علاوہ ان پر مشرقی خیالات اور نظریات کا کافی اثر تھا اور اعلٰی تعلیم یافتہ بھی تھے۔ رام کرشن تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن دونوں میں بہت اچھا تعلق قائم ہو گیا۔ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو رام کرشن نے ودیا ساگر کی ذہانت کی تعریف کی اور انھیں "بحر علم" سے تعبیر کیا۔ ودیا ساگر نے جواباً مذاق کرتے ہوئے کہا کہ کاش رام کرشن سمندر سے کچھ نمکین پانی حاصل کر لیتے۔ رام کرشن نے ادب اور عاجزی سے جواب دیا سمندر کا پانی نمکین سہی مگر علم کا سمندر نمکین نہیں۔[11]

یادگاریں ترمیم

ودیا ساگر کی وفات کے بعد رابندر ناتھ ٹیگور نے ان کے بارے میں لکھا: "معلوم نہیں کہ کیسے خدا نے 4 کروڑ بنگالی بناتے ہوئے ایک انسان پیدا کر دیا"۔[12][13]

وفات کے بعد انھیں کئی مختلف طریقوں سے یاد رکھا جا رہا ہے جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:

  1. ودیا ساگر سیتو نامی پُل دریائے ہوگلی پر بنایا گیا ہے جو بھارت کے صوبے مغربی بنگال میں واقع ہے۔ یہ ہاؤڑا شہر کو اس کے جڑواں شہر کلکتہ سے ملاتا ہے۔
  2. ودیا ساگر میلہ ان کی یاد میں مغربی بنگال میں 1994ء سے منایا جاتا ہے جس میں ان کی طرف سے تعلیم عام کرنے کی کوششوں کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
  3. ودیا ساگر کالج کلکتہ میں واقع ہے اور ودیا ساگر یونیورسٹی پچھم مدناپور میں ہے۔
  4. ودیاساگر وسطی کلکتہ کی ایک سڑک ہے۔
  5. مغربی بنگال کی حکومت نے ودیا ساگر کے نام سے ایک اسٹیڈیم بنایا ہے۔
  6. ودیا ساگر ہال آف ریزیڈنس ایک فنی تعلیمی ادارہ ہے جو ان کے نام سے منسوب ہے۔
  7. ودیاساگر اسٹیشن جھاڑ کھنڈ میں ان کے نام سے منسوب ہے۔
  8. 1970ء اور 1998ء میں بھارتی ڈاک کے محکمے نے ان کے نام سے منسوب ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔[14]

حوالہ جات ترمیم

  1. "Ishwar Chandra Vidyasagar"۔ www.whereincity.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2008 
  2. "Ishwar Chandra Vidyasagar: A Profile of the Philanthropic Protagonist"۔ www.americanchronicle.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 دسمبر 2008 
  3. Ghulam Murshid۔ "Vidyasagar, Pundit Iswar Chandra"۔ banglapedia۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جولا‎ئی 2015 
  4. Mohan Lal (2006)۔ "Ishwarchandra Vidyasagar"۔ The Encyclopaedia of Indian Literature۔ Sahitya Akademi۔ صفحہ: 4567–4569۔ ISBN 978-81-260-1221-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 مئی 2018 
  5. "Listeners name 'greatest Bengali'" (بزبان برطانوی انگریزی)۔ 2004-04-14۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2018 
  6. "The Hindu : International : Mujib, Tagore, Bose among `greatest Bengalis of all time'"۔ www.thehindu.com۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2018 
  7. "The Daily Star Web EditionVol. 4 Num 313"۔ archive.thedailystar.net۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اپریل 2018 
  8. https://www.boloji.com/articles/7697/ishwar-chandra-vidyasagar
  9. "Education of Ishwar Chandra Vidyasagar" 
  10. "Ishwar Chandra Vidysagar"۔ vivekananda.net 
  11. "Visit to Vidyasagar"۔ Gospels of Sri Ramakrishna by M, translated by Swami Nikhilananda۔ صفحہ: 37۔ 02 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2019 
  12. "Iswar Chandra Vidyasagar"۔ WBCHSE۔ West Bengal Council for Higher Secondary Education۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 ستمبر 2018 
  13. The Life And Times Of Ramakrishna Parmahamsa (1st ایڈیشن)۔ Prabhat Prakashan۔ 1 August 2013۔ صفحہ: 53۔ ISBN 8184302304 
  14. File:Ishwar Chandra Vidyasagar 1970 stamp of India.jpg, File:Ishwar Chandra Vidyasagar 1998 stamp of India.jpg

بیرونی روابط ترمیم