علم تجوید یا تجوید قرآن مجید کی تلاوت میں حروف کو ان کے درست مخرج سے اداء کرنے کے علم کو کہتے ہیں۔[1]۔ لوگوں میں عام ہے کہ عربی عبارات (قرآن، احادیث، درود و سلام وغیرہ) پڑہتے وقت اکثر "ع" اور "ا" کو ایک ہی مخرج سے ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح "ط اور "ت ؛ "ص", "س" اور "ث" ؛ "ح" اور "ھ" ؛ "خ" اور "کھ(جو دراصل عربی میں ہے ہی نہیں)" ؛ "ف" اور "پھ(عربی زبان میں موجود ہی نہیں)", "ک" اور "ق" ؛ "ذ،"ظ"،"ض" اور "ز" کو بھی ایک مخرج سے ہی ادا کیا جاتا ہے۔ جبکہ عربی زبان کے تمامی 28 حروف کی الگ الگ 28 مخارجی آوازیں ہیں اور قرأت کے دوران ہر حرف کو اپنے ممتاز مخرج سے ہی ادا کیا جانا چاہیے (اس کو ہی تجوید کہا جاتا ہے) ورنہ معنیٰ و مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو جائے گا۔ مثلاً، اگر کہیں؛

• "الحمد لِلّٰه رب العٰلمین" (ترجمہ: تمام کی تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں) کی جگہ "الھمد لِلّٰه" پڑه ليا تو پھر ترجمہ ہو جائیگا: تمام کا تمام "دُھواں" اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔

• "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر" (ترجمہ: پس اپنے رب کی خاطر نماز پڑہیے اور قربانی کیجیے) کی جگہ "فصل لربك وَانْھر" پڑه ليا تو پھر ترجمہ ہو جائیگا: پس اپنے رب کی خاطر نماز پڑہیے اور "ڈانٹیے" اسے۔

• "قُل هو اللّٰه احد" (ترجمہ: کہو کہ اللّٰہ ایک ہے) کی جگہ "کُل هو اللّٰه احد" پڑه ليا تو پھر ترجمہ ہو جائیگا: "کھائو" کہ اللّٰہ ایک ہے۔

اب خود ہی دیکھ لیں کہ بغیر تجوید کے عربی عبارات کا مطلب کتنی حد تک بدل جاتا ہے کہ جان بوجھ کر پڑھنے والا گستاخ تو یقیناً کافر ہو جائے گا۔ پھر اس طرح بغیر تجوید پڑھی گئی نماز، مسنون دعائیں، صلاة و سلام وغیرہ کیسے قبول ہو سکتے ہیں؟؟۔ الٹا یہ اعمال ہمارے گناہ کبیرہ شمار ہوں گے، اگر علم ہونے کے باوجود تجوید اختیار نہ کی جائے۔

لہٰذا قرأت مین اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے سے بالکل صحیح ممتاز ہو، (سیکھنا اور عمل میں لانا) فرض عین ہے اور اس کے علاوہ نماز بھی قطعاً باطل ہے۔ [2]

شرعی مسئلہ

ترمیم

نماز میں اگر قرآن یا کسی ذکر کے الفاظ بدل جائیں مگر پھر بھی معنیٰ و مفہوم میں تبدیلی نہ آئے، تو نماز ہو جائے گی۔ مثلاً: اگر الحمد شریف کے بعد آپ نے جو آیت تلاوت کی اس میں غلطی سے "ان اللّٰه علیٰ کل شیء علیم" کی جگہ "ان اللّٰه علیٰ کل شیء قدیر" پڑھ لیا تو بھی نماز ہو گئی، لیکن معاذ اللہ اگر آپ نے "ان اللّٰه علیٰ کل شیء اَلیم" (ترجمہ: بیشک، اللہ ہر شے کو تکلیف دینے والا ہے) پڑہا تو نماز فاسد ہو گئی (دوبارہ ادا کرنا پڑے گی) اور گناہ بھی ہوا (توبہ بھی کرنا ہوگی)۔ اسی طرح رکوع کے دوران اگر "سبحٰن ربی العظیم" میں "عظیم" کی جگہ کریم، رحیم يا حکیم وغیرہ پڑہا تو بھی نماز ہو جائے گی، لیکن اگر "عزیم" پڑہ لیا تو فاسد و باطل ہے۔ [3]

کچھ ضروری اصطلاحات

ترمیم
  • (1) حروف: "ألف" سے لے کر "ي" تک تمام حرفوں کی تعداد 29 ہے ان کو حروف تہجی کہتے ہیں۔ لیکن آوازوں کی تعداد 28 ہے کیونکہ "ا" اور "ء" کا مخرج ایک ہی ہے۔
  • (2) (حروف حلقی):
وہ تما م حروف جو حلق سے ادا ہوتے ہیں ان کی تعداد 6 ہے اوروہ یہ ہیں (ء، ھ، ع، ح، غ، خ)

1_ (جوفِ دھن):- اس میں (الف)،"وِ مائدہ"، "یِ مائدہ" ، حروف شامل ہیں - 2_ (اقصیِٰ خلق):_ اس میں "ھ" اور "ء "حروف شامل ہیں- 3_ (وسطِ خلق):- اس میں "ع" اور "ح" حروف شامل ہیں۔ 4_(ادنٰیِ خلق):- اس میں "غ" اور "خ" حروف شامل ہیں

  • (3) حروف مستعلیہ: وہ حروف جو ہر حال میں پُر پڑھے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد 7 ہے۔ (خ، ص، ض، ط، ظ، غ، ق) حروفِ مستعلیہ کا مجموعہ خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ ہے ۔
  • (4) حروف شفوی: وہ حروف جو ہونٹوں سے ادا ہوتے ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے 4 ہیں ۔(ب۔ م۔ و۔ ف)
  • (5) حروفِ مدّہ: (حروف ہوائیہ) وہ حروف جو ہوا پر ختم ہوجاتے ہیں۔ ان کی مقدار ایک الف کے برابر ہوتی ہے ۔(ا) ماقبل مفتوح، (و) ساکن ماقبل مضموم،(ی) ساکن ماقبل مکسور۔
  • (6) حروفِ لین: وہ حروف جو نرمی سے پڑھے جاتے ہیں ۔ (و) اور (ی) ساکن ماقبل مفتوح۔
  • (7) حرکت: زبر، زیراور پیش میں سے ہر ایک کو حرکت کہتے ہیں اور ان کو مجموعی طور پر حرکات کہتے ہیں ۔
  • (8) فتحہ اشباعی: کھڑے زبر کو کہتے ہیں ۔
  • (9) ضَمّہ اشباعی: اُلٹے پیش کو کہتے ہیں۔
  • (10) کسرہ اشباعی: کھڑے زیر کو کہتے ہیں۔
  • (11) متحرک: جس حرف پر حرکت ہو اسے متحرک کہتے ہیں ۔
  • (12) فتحہ: زبر کو کہتے ہیں۔ جس حرف پر فتحہ ہو اسے مفتوح کہتے ہیں ۔
  • (13) کسرہ: زیر کو کہتے ہیں۔ جس حرف کے نیچے کسرہ ہو اسے مکسور کہتے ہیں ۔
  • (14) ضَمّہ: پیش کو کہتے ہیں۔ جس حرف پر ضمہ ہو اُسے مضموم کہتے ہیں۔
  • (15) تنوین: دو زبر ( ً)، دو زیر ( ٍ) اور دو پیش ( ٌ) کو کہتے ہیں اورجس حرف پر تنوین ہو اسے مُنَوَّنْ کہتے ہیں۔
  • (16) نونِ تنوین: تنوین کی ادائیگی میں جو نون کی آواز پیدا ہوتی ہے اسے نونِ تنوین کہتے ہیں۔
  • (17) ماقبل حرف: کسی حرف سے پہلے والے حرف کو کہتے ہیں۔
  • (18) مابعد حرف: کسی حرف کے بعد والے حرف کو کہتے ہیں۔
  • (19) ترتیل : بہت ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا (علمِ تجوید اور علمِ وقف کی رعایت کے ساتھ صحیح و صاف پڑھنا) جیسے قراء حضرات محافل میں تلاوت کرتے ہیں ۔
  • (20) حدر: جلدی جلدی پڑھنا جس سے تجوید نہ بگڑے۔ جیسے امام تراویح میں پڑھتا ہے۔
  • (21) تدویر: ترتیل اور حدر کی درمیانی رفتار سے پڑھنا (جس طرح امام فجر، مغرب اورعشاء میں قدرے بلند آواز میں پڑھتا ہے)
  • (22) اظہار: (ظاہر کرنا) نون ساکن، نون تنوین اور میم ساکن کو بغیر غنہ کے ظاہر کر کے پڑھنا۔
  • (23) اقلاب:(تبدیل کرنا) نون ساکن اور نونِ تنوین کو میم سے بدل دینا (یہ صرف اس کے ساتھ خاص ہے)
  • (24) اِخفاء: (چھپانا) نون ساکن اور میم ساکن کو چھپاکر ادا کرنا۔
  • (25) غُنّہ: ناک کے بانسے میں آواز کو ایک الف کے برابر چکر دینا اسے غنہ کہتے ہیں۔
  • (26) موقوف علیہ: جس حرف پر وقف کیا جائے ۔
  • (27) وقف: وقف کا لغوی معنٰی ٹھہرنا، رکنا۔ اصطلاح تجوید میں کلمہ کے آخر پر سانس اور آواز توڑ دینا اور موقوف علیہ کو(اگر متحرک ہو تو) ساکن کر دینا وقف کہلاتا ہے۔
  • (28) اِدغام: (ملانا) دو حرفوں کو ملا دینا۔ (پہلا مدغم اور دوسرا مدغم فیہ کہلاتا ہے)
  • (29) مُدْغَمْ فِیہ: جس حرف میں ادغام کیا گیا ہو۔
  • (30) سکون: سکون جزم کو کہتے ہیں۔
  • (31 )ساکن: جس حرف پر سکون ہو اسے ساکن کہتے ہیں ۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. علم تجوید
  2. فتاويٰ رضویہ، جلد اول، صفحہ 555، مطبوعہ بریلی
  3. فتاوىٰ الهنديه، كتاب الصلاة، ج 1 ، ص 80
  4. نصاب التجوید مؤلف : مولانا محمد ہاشم خان صفحہ 9: المد ینۃ العلمیۃ کراچی

مزید دیکھیے

ترمیم