ترون بھارتیہ
ترون بھاٹیا بھارت میں بہ طور خاص دستاویزی فلموں کی ادارت میں شہرت رکھتے ہیں۔
کام
ترمیمجشن آزادی
ترمیمجشن آزادی ایک دستاویزی فلم ہے جس میں کشمیر میں اگست 2004ء - 2006ء کے بیچ بھارت کی ریاست کشمیر میں آزادی کے دیگر ابنائے وطن کے ساتھ آزادی کے تصور کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ 2007ء میں بھارت کے 60 ویں جشن آزادی کے موقع پر اہل وطن کی رایوں کو دکھانے کی کڑی کا ایک حصہ ہے۔ اس ڈاکیومنٹری کی تحریر اور ہدایت سنجے کاک کی ہے، تصویر کشی رنجن پالیت کی ہے، جب کہ ادارت کے فرائض ترون بھارتیہ نے ادا کیے تھے۔ دستاویزی کا دورانیہ 139 منٹ پے۔ منظر کشی کشمیری، اردو اور انگریزی میں کی گئی ہے، جب کہ سب ٹائٹلز انگریزی میں ہے۔[1]
جشن آزادی
ترمیمپہلو خان کی داستان (انگریزی: The Ballad of Pehlu Khan) (ہندی: पहलू ख़ान की दास्तान) اسی طرح عامر کے سیاسی افکار کا آئینہ دار ہے جس طرح سے کہ ان کا اس سے پہلے کا نغمہ بھی رہا ہے۔ یہ نغمہ راجستھان کے ایک ڈیری کسان پہلو خان کے بے رحمانہ قتل کو گئو رکشکوں کی قساوت قلبی، مطلق العنانی، جمہوریت کے خدا خدا کر کے گرتے معیاروں، سماجی عدم مساوات ، بڑھتی فرقہ واریت اور انصاف کے فقدان سے جوڑتا ہے اور یہ گیت اگرچیکہ پورے واقعے کو سرسری طور پر کہنے کی کوشش ہے، مگر اس واقعے کو کئی اسی طرح کے دیگر واقعات سے منطقی طور پر جوڑتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں ایک سیاسی جماعت غالب اکثریت سے بر سر اقتدار ہو چکی ہے، ذرائع ابلاغ عمومًا حکومت کے شانہ بہ شانہ واقعات کو بیان کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں گودی میڈیا کہا جانے لگا، یہ نغمہ در حقیقت امریکی گلوکار بوب ڈیلان کے نغمے ‘The Lonesome Death of Hattie Carroll’ (ہیٹی کیرول کی تنہائی میں موت) کی طرز پر بنایا گیا ہے۔ اس نغمے کو فلمانے کے دوران ادارت ترون بھارتیہ نے ڈاکیومنٹری فلمساز راہل رائے کی مدد سے کی۔ یہ نغمے کا ویڈیو ساڑھے پانچ منٹ کا ہے۔ اس ویڈیو میں عامر خود اپنی گٹار بجاتے ہوئے دکھائی پڑتے ہیں۔ ویڈیو میں پہلو خان کے حملے سے جڑی ویڈیو کی کچھ تصاویر مسلسل گشت کرتی ہوئی دکھائی پڑتی ہیں۔ اس بارے میں عامر کا کہنا ہے: "اگر اس دور کے درد کو سمجھنے کے لیے کسی کو کوئی استعارے کی ضرورت ہے، تو میرے پاس اس مصرعے سے بہتر کچھ نہیں۔" وہ نغمے کے اس فقرے کی طرف اشارہ کر رہے تھے: "بس خطا اتنی سی تھی کہ یہیں پیدا ہوئے اور مسلمان تھے۔"[2]