تھیوڈور لیٹن پینل
تھیوڈور لیٹن پینل (انگریزی: Theodore Leighton Pennell ؛ 1867ء تا 1912ء)، افغانستان کے قبیلوں کے درمیان رہنے والے ایک مسیحی مشنری ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے برطانوی ہند کے شمال مغربی سرحدی علاقے بنوں میں ایک مشنری ہسپتال کی بُنیاد رکھی؛ یہ اب پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ اپنی اِس عوامی خدمت کے لیے انھیں بھارتی قیصرِ ہند کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ انھوں نے 1908ء میں ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ”افغان سرحد کے جنگلی قبیلوں کے درمیان“ رکھا اور اِس کتاب کو اِنکی زندگی پر مبنی ایک آپ بیتی کے طور پر بھی لیا جاتا ہے۔
تھیوڈور لیٹن پینل | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1867ء [1][2][3][4][5][6] |
تاریخ وفات | سنہ 1912ء (44–45 سال)[1][2][3][4][5][6] |
زوجہ | ایلس موڈ سورابجی پینل |
عملی زندگی | |
پیشہ | مبلغ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی |
درستی - ترمیم |
سوانح حیات
ترمیمابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمتھیوڈور پینل 1867ء میں انگلستان میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی تعلیم ایسٹ بورن کالج سے حاصل کی جہاں سے آپ نے 1890ء میں بطور ایک میڈیکل ڈاکٹر (MB، MRCS اور LRCP) اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ انھوں نے بعد از 1891ء میں MD اور FRCS کی تعلیم بھی مکمل کر لی۔ جناب پینل نے ساتھ ساتھ چرچ مشنری سوسائٹی (CMS) کے لیے اپنی خدمات کی پیشکش بھی کی۔ اِن کے بچپن میں ہی اُن کے والد کی وفات ہو گئی اور اُن کی والدہ نے اُُنہیں خوب پیار سے پال پوس کر بڑا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے اپنی والدہ کے ساتھ تعلقات بہت قریبی اور مُشتاق تھے۔
ہندوستان میں آمد
ترمیمجب چرچ مشنری سروس نے پینل کو ہندوستان بھیجنے کا سوچا، تو اِن کی ماں نے بھی اِن کا ساتھ دینے کا تہیہ کر لیا۔ دونوں ماں بیٹے نے اُردوُ سیکھنا شروع کیا۔ پینل 1892ء میں کراچی پہنچے، جہاں سے آپ نے سیدھا ڈیرہ اسماعیل خان کا رُخ کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی آپ نے اپنی میڈیکل پریکٹس کا افتتاح کیا۔ ابتدا میں اپنے کام کی خاطر پینل کو مقامی لباس پہن کر دور دراز گاؤں اور قصبوں میں جانا پڑتا تھا اور چنانچہ آپ نے ایک مخصوص پٹھان لباس کا انتخاب کیا جو آپ پہن کر لوگوں میں نکلا کرتے تھے۔ پینل نے 1893ء میں ٹانک شہر کا رُخ کیا جہاں انھوں نے مسعود اور وزیر قبائل کے ساتھ اپنے روابط قائم کرنا شروع کیے۔
انجیل کی منادی کا کام
ترمیماکتوبر 1893ء میں آپ بنوں پہنچے جہاں آپ نے افغانستان سے آنے والے مسافروں میں انجیل کی مُنادی کا کام شروع کیا۔ اِس وقت تک آپ اُردو اور پشتو بولنے میں حد درجہ مہارت حاصل کر چُکے تھے۔ اپنے میڈیکل کام کے ساتھ ساتھ پینل نے پشتو زبان میں مسیحیت کی منادی کا کام بھی جاری رکھا۔ جہاں وقت ملتا، وہاں آپ مسیحی ادبیات اور کُتب بنوں اور اِس کے دیگر قریبی علاقہ جات میں بانٹا کرتے تھے۔ پینل اکثر افغان سوچ پر حیران ہوا کرتے تھے، اِن کو اِس بات کا بخوبی اندازہ ہو چلا تھا کہ قبائل میں منادی کرتے وقت منطق کا استعمال بے فائدہ تھا۔
ایک دن پینل کو ایک مولوی نے دعوت دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بھیڑ اِن کے گرد جمع ہو گئی۔ پینل کو کہا گیا کہ وہ مسیحیت کے بارے میں کچھ کہیں اور مولوی کے سوالوں کا جواب دیں۔ پینل نے جھٹ سے بحثی مقالمے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا۔ مولوی نے جب اِن سے یہ پوچھا کہ سورج ہر شب ڈھلتا کیوں ہے تو پینل نے سائنسی منطق سے اِس بات کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے یہ بتایا کہ دنیا گول ہے اور سورج کے گرد گھومتی ہے لیکن وہاں بیٹھے کسی انسان کو اِن کی یہ وضاحت پسند نہ آئی۔ البتہ جب مولوی نے یہ کہا کہ رات کو سورج جہنم کی آگ سے جل کر واپس صبح سویرے طلوع ہوتا ہے تو سب بیٹھے قبائلی طالب اِس دوسری وضاحت سے مطمئن تھے۔[7] چنانچہ پینل کا ماننا تھا کہ افغان قبائل میں منادی کرتے وقت منطق کا استعمال جتنا کم کیا جائے اُتنا اچھا ہے۔[8]
ایلس سورابجی سے شادی
ترمیمپینل کی والدہ، کروکر پینل، نے 1902ء میں برطانیہ خط کے ذریعے ایلس سورابجی کو بُلاوا بھیجا۔ اِن کا مقصد ایلس کا اپنے بیٹے کے لیے ہاتھ مانگنا تھا۔ البتہ، جب جناب پینل سے اِس بات کا پوچھا جاتا تھا تو وہ کہہ دیتے تھے کہ انھوں نے خود ہی ایلس کو تب پسند کیا تھا جب وہ بہاولپور کے زنانہ ہسپتال میں بطور ایک ڈاکٹر تعینات تھیں۔ اِس سے پہلے کہ ایلس سے رشتے کی بات کی جاتی، جناب پینل کی والدہ نے اِن کا رشتہ ایلس کی بڑی بہن کورنیلیا کے لیے بھی بھیجا لیکن کورنیلیا نے یہ رشتہ یہ کہہ کر ٹھُکرا دیا کہ انھیں ہندوستان میں شادی نہیں کرنی۔[9]
بیماری اور وفات
ترمیم1909ء میں جناب پینل کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی اور اِن کو بنوں ہسپتال میں علاج کے لیے لے جایا گیا۔ طبیعت تھوڑی ٹھیک ہو جانے پر مقامی لوگوں نے اِن کا پھولوں سے استقبال کیا۔ 15 مارچ 1912ء کو ہسپتال میں ایک بیمار انسان کو داخل کیا گیا، یہ مریض ایک خطرناک وبائی مرض سے دوچار تھا۔ اِس کو دیکھنے والا ڈاکٹر ولیم ہال بارنیٹ بھی اِس مرض میں مبتلا ہو گیا۔ جناب پینل نے جب ڈاکٹر ولیم کا علاج کیا تو یہ مرض انھیں بھی لگ گیا۔ کچھ ہی عرصے میں ڈاکٹر ولیم کی وفات ہو گی اور اِسی طرح دو دن بعد جناب پینل بھی اِس وبائی مرض کے آگے گٹھنے ٹیک گئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 45 سال تھی۔
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/130656062 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب Project Gutenberg author ID: https://gutenberg.org/ebooks/author/25344 — بنام: Theodore Leighton Pennell — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: آرون سوارٹز — او ایل آئی ڈی: https://openlibrary.org/works/OL2566818A?mode=all — بنام: Theodore Leighton Pennell — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/439261 — بنام: T. L. Pennell — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب بنام: Theodore Leighton Pennell — Plarr ID: https://livesonline.rcseng.ac.uk/biogs/E002925b.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb14506840g — بنام: Theodore Leighton Pennell — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ تھیوڈور لیٹن پینل (1909ء)، "افغان سرحد کے جنگلی قبیلوں کے درمیان"۔ سیلی اینڈ کو۔ ص: 103۔ اخذ کردہ بتاریخ 25 نومبر 2015ء۔
- ↑ تھیوڈور لیٹن پینل (1909ء)، "افغان سرحد کے جنگلی قبیلوں کے درمیان"۔ سیلی اینڈ کو۔ ص: 104۔ اخذ کردہ بتاریخ 25 نومبر 2015ء۔
- ↑ رچرڈ سورابجی (2010ء)، "کھلے دروازے: کورنیلیا سورابجی کی انسنی کہانی"۔ آئی بی ٹورس۔ ص: 403۔ اخذ کردہ بتاریخ 25 نومبر 2015ء۔