جاذب قریشی
جاذب قریشی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر، نقاد اور معلم تھے۔
جاذب قریشی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 اگست 1940ء لکھنؤ ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 21 جون 2021ء (81 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، ادبی نقاد ، معلم |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمپیدائش و تعلیم
ترمیمجاذب قریشی کے خاندان کا تعلق لکھنئو سے تھا مگر وہ 3 اگست 1940 کے دن کلکتہ میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد گورنمنٹ پریس میں نوکری کر رہے تھے۔ پیدائش کے وقت جاذب قریشی کا نام محمد صابر رکھا گیا۔ ان کے والد کا نام محمد افضل شیخ اور والدہ کا نام محمودہ خانم تھا۔ جاذب قریشی پانچ سال کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہو گئے۔ والد کی وفات کے بعد جاذب قریشی کا خاندان جو ان کے علاوہ والدہ اور دو چھوٹے بھائیوں شاکر اور ذاکر پہ مشتمل تھا شدید مالی مصیبت کا شکار ہو گیا۔ ان چاروں کے ساتھ جاذب قریشی کی ایک مرحومہ خالہ کی دو لڑکیاں طاہرہ اور عائشہ اور ایک دوسری متوفی خالہ کا لڑکا محمد احمد رہتے تھے۔ کرچی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی۔
ملازمت
ترمیممالی مشکلات کے باعث جاذب قریشی کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور وہ اپنے بھائی شاکر کے ساتھ ڈھلائی کے ایک کارخانے میں کام کرنے لگے۔ دونوں بھائیوں اور خالہ زاد بھائی محمد احمد کے کام کرنے سے گھر کے مالی حالات کچھ سدھرے تو جاذب قریشی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں اپنے ماموں دلدار خان کے پاس الہ باد پہنچ گئے۔ ان کے ماموں ٹینس کے کوچ تھے اور اچھی مالی حیثیت رکھتے تھے۔ ماموں نے بھی بھانجے کی مدد کرنے کا بیڑا اٹھایا مگر اگلے دن جاذب قریشی کی والدہ وہاں پہنچ گئیں اور جاذب قریشی کو واپس لکھنئو لے آئیں جہاں جاذب قریشی پھر ڈھلائی کے کام میں لگ گئے۔ لکھنئو میں ہی جاذب قریشی کے ایک اور خالہ زاد بھائی عبد الواحد رہتے تھے جو شمیم لکھنوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ جاذب قریشی کو عبد الواحد کے ساتھ مشاعروں میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں سے جاذب قریشی کو شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد1950ء میں لاہور تشریف لائے۔ بعد ازاں کرچی آ گئے جہاں کرچی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد جاذب قریشی نے جناح کالج میں لیکچرر کی نوکری کی مگر پھر فورا ہی "پتھر کے صنم" سے متعلق مصروفیت کی وجہ سے یہ نوکری چھوڑ دی۔
پاکستان آمد
ترمیممئی 1950 میں جاذب قریشی اپنے گھر والوں کے ساتھ لکھنئو چھوڑ کر لاہور چلے آئے۔ لاہور میں جاذب قریشی ایک چھاپہ خانے میں کام کرتے اور رات کے وقت غزلیں لکھتے۔ لاہور میں شاعری کرنے کے دوران جاذب قریشی نے شاکر دہلوی نامی ایک مقامی بزرگ شاعر کو اپنا استاد مانا اور شاکر دہلوی کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کی۔ ایک دن جاذب قریشی کے ایک جاننے والے شوکت ہاشمی نامی آدمی نے ان سے کہا کہ، "اگر آپ کو سنجیدگی سے شاعری کرنی ہے تو پہلے اپنے آپ کو شاعری کا اہل بنائیے
اور کچھ لکھنا پڑھنا سیکھیے۔" شوکت ہاشمی کی اس بات کا جاذب قریشی پہ گہرا اثر ہوا اور انھوں نے اپنی باقاعدہ تعلیم کا سفر پھر سے شروع کیا۔ وہ شاہ عالمی کے ایک پرائیویٹ اسکول میں رات کے وقت تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انھوں نے اس درمیان افسانے بھی لکھے۔ اور اسی دور میں وہ حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی نشستوں میں بھی شریک ہوئے جہاں منٹو، اے حمید، مختار صدیقی اور عبادت بریلوی وغیرہ اپنی تحریریں تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ جس وقت جاذب قریشی میٹرک کی تعلیم پرائیویٹ حاصل کر رہے تھے ان کے بھائی اور والدہ کراچی چلے آئے۔ جاذب قریشی اپنے ماموں کے ساتھ لاہور میں رہے جہاں ماموں نے بھانجے کے تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں ہر ممکن مدد کی۔ جاذب قریشی نے لاہور میں کچھ عرصہ اورینٹل کالج میں بھی گزارا جہاں حبیب جالب ان کے ہم جماعت تھے۔ لاہور میں قیام کے دوران ہی جاذب قریشی مخلصین ادب نامی ایک ادبی ادارے کے سیکریٹیری بھی رہے۔ اس ادارے کو فروغ لکھنوی نے قائم کیا تھا اور اس کی محافل انارکلی کے عقب میں ایک صوفی کے تکیے پہ ہوا کرتی تھیں۔ سنہ 1961 میں جاذب قریشی نے اثر نعمانی کے ساتھ مل کر لاہوری گیٹ کے اندر ایک جنرل اسٹور "دلکش اسٹور" کے نام سے کھولا جو چند ماہ ہی چلا اور جاذب قریشی کے لیے خاصہ خسارے کا سودا ثابت ہوا۔ پھر سنہ 1962 میں وہ کراچی آ گئے۔ ان کے اس دور کے دوستوں میں عارف عثمانی، شبنم ہاشمانی، افتخار انور اور زاہد حسین صاحبان سر فہرست ہیں۔ کراچی میں انھوں نے مختلف رسائل مثلا شمس زبیری کے "نقش"، ناصر محمود کے "نگارش"، اطہر صدیقی کے "سات رنگ" اور طفیل احمد جمالی کے "نمکدان" کے لیے کام کیا۔ سنہ 1964 میں انھوں نے تدریس کا کام شروع کیا۔ انھیں دنوں "ارباب قلم" نامی ایک ادبی ادارہ بنا جس کے ساتھ جاذب قریشی نے سنہ 1967 تک کام کیا۔ ارباب قلم کے ساتھ جاذب قریشی کی وابستگی میں اس وقت خلل آیا جب ایک طرف تو انھوں نے جامعہ کراچی میں اپنی باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا اور دوسری طرف ایک فلم "پتھر کے صنم" بنانے کا ارادہ کیا۔ جامعہ کراچی میں ان کے ساتھیوں میں اقبال حیدر اور سلمی رضا شامل ہیں۔ کراچی میں انھوں نے "کائنات" نامی ایک رسالے کے لیے مدیر کے طور پہ کام کیا۔ یہ رسالہ مشہور مصور آذر روبی نکالا کرتے تھے۔ جاذب قریشی نے ہفت روزہ "نصرت" کے لیے کالم نگاری بھی کی ہے۔
آج کل جاذب قریشی کا بڑا وقت شاعری اور تنقیدی مضامین لکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ وہ اندرون پاکستان اور بیرون ملک مشاعروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
فلمی صنعت
ترمیمجاذب قریشی نے ایک فلم "پتھر کے صنم" بنانے کا ارادہ کیا۔ فلم سنہ 1974 میں مکمل ہوئی مگر ناکام رہی اور جاذب قریشی کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ فلم کی ناکامی کے بعد جاذب قریشی نے شاعری سے اپنا رشتہ پھر استوار کیا۔
شادی
ترمیمجاذب قریشی کی شادی سنہ 1963 میں ہوئی۔ سنہ 1993 میں جاذب قریشی کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔
صحافت
ترمیمجاذب قریشی نے چار سال روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کو مرتب کرنے کا کام بھی کیا۔
ادبی خدمات
ترمیمجاذب قریشی بنیادی طور پر شاعر ہیں۔ شاعر کے علاوہ آپ نے کالم نگار، تنقیدنگار بھی ہیں ۔
تخلیقات
ترمیمجاذب قریشی اردو شاعری اور تنقیدی مضامین کی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مطبوعات درج ذیل ہیں۔
- تخلیقی آواز
- آنکھ اور چراغ
- شاعری اور تہذیب
- دوسرے کنارے تک
- میری تحریریں
- میں نے یہ جانا
- پہچان
- نیند کا ریشم
- شیشے کا درخت
- آشوب جاں
- اجلی آوازیں
- شکستہ عکس
- شناسائی
- جھرنے
- عقیدتیں
- مجھے یاد ہے
- نعت کے جدید رنگ
- میری شاعری
- میری مصوری
بیرونی روابط:
ترمیموفات
ترمیم21 جون 2021ء کو طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے ، وہیں عزیز آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کی گئے،[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 29 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2021