عبادت بریلوی
پروفیسر ڈاکٹر عبادت بریلوی (پیدائش: 14 اگست 1920ء- وفات: 19 دسمبر 1998ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور اردو نقاد، محقق، معلم، خاکہ نگار اور سفرنامہ نگار تھے جو اپنی تصنیف اردو تنقید کا ارتقا کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں۔
عبادت بریلوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 14 اگست 1920 بریلی، برطانوی ہند |
وفات | 19 دسمبر 1998 (78 سال) لاہور، برطانوی ہند |
مدفن | سمن آباد، لاہور |
شہریت | ![]() |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ لکھنؤ |
تعلیمی اسناد | پی ایچ ڈی |
پیشہ | پروفیسر، سفرنامہ نگار، ادبی نقاد |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
شعبۂ عمل | ادبی تنقید، خاکہ نگاری، سفرنامہ، غالبیات، خود نوشت |
ملازمت | اورینٹل کالج لاہور، اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز، یونیورسٹی آف لندن، جامعہ پنجاب، جامعہ انقرہ |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
حالات زندگی ترميم
ڈاکٹر عبادت بریلوی 14 اگست، 1920ء کو بریلی، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبادت یار خان تھا۔[1][2] 1942ء میں انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے اور 1946ء میں اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔[2]
ملازمت ترميم
عبادت بریلوی کی تعلیم مکمل ہوئی تو انہیں اینگلوعریبک کالج، دہلی میں ملازمت مل گئی۔ محمد علی جناح اور لیاقت علی خان بھی اس تعلیمی ادارے کے صدر رہے ہیں۔ یہ 1944ء کا دورتھا، تب تک دہلی مسلم لیگ کا گڑھ بن چکا تھا، لیکن جب پاکستان بن گیا اور مولوی عبدالحق بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان منتقل ہو گئے تو اس کالج کی دنیا ہی بدل گئی۔ مسلمانان دہلی بھی پاکستان ہجرت کرنے لگے، لیکن عبادت بریلوی 1950ء تک وہیں رہے۔ آخر مولوی عبد الحق کے مشورے سے پاکستان آئے اور اورینٹل کالج لاہور سے ملازمت کا آغاز کیا۔ اورینٹل کالج میں گیارہ سال گزارنے کے بعد عبادت بریلوی لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز، لندن یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں انھوں نے بی اے آنرز کے طلبہ کو پڑھایا۔ ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کے کام کی نگرانی بھی کی۔ وہاں علمی و تحقیقی کام کے نئے میدان سامنے آئے۔ انہوں نے وہاں 6 سال قیام کیا۔ اس دوران بے شمار فارسی و عربی مقالے اور نادر نسخے تلاش کر کے ان کی طباعت کی۔[3]
1966ء میں وطن واپس آئے، تو جامعہ پنجاب کے پروفیسر مقرر ہو ئے۔1970ء میں اورینٹل کالج کے پرنسپل بنائے گئے۔ ان کے دورمیں پوری دنیا سے دانش ور اور پروفیسرز کالج میں لیکچر دینے آتے تھے۔ یوں کالج نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی اور اسے مشرقی اور اسلامی علوم کا اہم ادارہ سمجھا جانے لگا۔[3]
عبادت نے عمر عزیز کے 32 سال جامعہ پنجاب اور اورینٹل کالج میں گزارے،ایک معلم کی حیثیت سے ہزا رہا لیکچر دیے، بحیثیت ادیب ہزا رہا صفحے لکھے۔ دہلی،لاہور، لندن اور ترکی میں بے شمار تحقیقی مقالوں کی نگرانی کی۔ 14 اگست 1980ء کو ان کی مدتِ ملازمت ختم ہوئی۔ انہوں نے چالیس سالہ ملازمت کے دوران پروفیسر و صدرشعبہ، اورینٹل کالج کے پرنسپل، اسلامک اور اورینٹل لرننگ کے ڈین اور تاریخ ادبیات مسلمانِ پاکستان و ہند کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ اس دوران 125 کتابیں تحریر کیں۔ سبکدوشی کے بعد مدت ملازمت میں توسیع ہوئی، تو دو سال کے لیے حکومت نے انہیں انقرہ، ترکی بھیج دیا۔ انقرہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے پروفیسر کی کرسی خالی تھی۔ عبادت صاحب نے وہاں بھی محنت اور لگن سے کام کیا۔ اردو کی انڈر گریجویٹ کلاسوں کے ساتھ ساتھ پوسٹ گریجویٹ کلاسوں کا بھی اجرا کیا، جہاں تحقیقی کام باقاعدگی سے ہونے لگا۔ قیامِ ترکی کی روداد عبادت بریلوی نے ایک سفرنامے ترکی میں دو سال کے نام سے قلمبند کی۔ جدید ترکی کے بارے میں یہ واحد کتاب ہے جس سے ترکی اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات اور باہمی محبت آشکار ہوتی ہے۔ تقریباً تین سال ترکی میں گزارنے کے بعد وہ فراغت کی زندگی بسر کرنے لگے۔[3]
ادبی خدمات ترميم
ڈاکٹر عبادت بریلوی کی پہچان اردو تنقید ہے، وہ اردو کے صفِ اول کے نقاد مانے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ محقق اور سفر نامہ نگار بھی ہیں۔ ان کی تصانیف میں اردو تنقید کا ارتقا، تنقیدی زاویے، غزل اور مطالعۂ غزل، غالب کا فن، غالب اور مطالعۂ غالب، تنقیدی تجربے، جدید اردو تنقید، جدید اردو ادب، اقبال کی اردو نثر اور شاعری، شاعری کی تنقید' کے نام سرفہرست ہیں۔ ان کے سفرناموں میں ارضِ پاک سے دیارِ فرنگ تک، ترکی میں دو سال، دیارِ حبیب میں چند روز اور لندن کی ڈائری اور آپ بیتی یاد عہد رفتہ کے نام شامل ہیں۔[2]
تصانیف ترميم
- غالب اور مطالعۂ غالب:
یہ کتاب 1969ء میں رائٹرز اکیڈمی، لاہور سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب غالب کی شخصیت اور فن پر لکھی گئی ہے۔ غالب کی شخصیت و فن پر تحریر کی گئی تحقیقی و تنقیدی کتب میں سے ایک بہترین کتاب ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اس کتاب میں غالب کے فن اور شخصیت کے حوالے سے کافی تحقیقی مواد پیش کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری کے کئی نئے گوشے اُجاگر ہوئے ہیں۔ یہ کتاب عبادت بریلوی کی تیس سال کی محنت ،غور و فکر اور تحقیق و جستجو کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کے عناوین اس طرح ہیں ، حیات غالب پر چند خیالات ، غالب کے حالات اور شخصیت ، غالب کا ماحول ،غالب کی تصانیف ، غالب کی عظمت ، غالب کی عشقیہ شاعری ،غالب کے تغزل میں شوخی کا پہلو ، غالب کا اجتماعی شعور ، غالب اور غم دوراں ،کلام غالب کے نئے زاویے ، غالب کی شاعری کا جمالیاتی پہلو ، غالب کی تصویر کاری اور پیکر تراشی ، غالب کے فنی اضافے ، غالب اور ان کے خطوط ، خطوط غالب کی ادبی اہمیت ، نامہ غالب ، غالب کے نقاد ، اور تنقید غالب کے سو سال۔ اس کتاب کو تنقید غالب کے باب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔
تنقید و تحقیق ترميم
- اردو تنقید کا ارتقا
- تنقیدی زاویے
- تنقید اور اصول تنقید
- اردو تنقید نگاری
- غزل اور مطالعۂ غزل
- غالب کا فن
- غالب اور مطالعۂ غالب
- تنقیدی تجربے
- جدید اردو تنقید
- جدید اردو ادب
- جدید شاعری
- اقبال کی اردو نثر اور شاعری
- شاعری کی تنقید
- مراثیٔ جرأت
- روایت کی اہمیت
- مادھونل اور کام کندلا
- خطوطِ عبد الحق بنام ڈاکٹر عبد اللہ چغتائی
- گلزارِ دانش
خاکے ترميم
- آوارگان عشق
- جلوہ ہائے صد رنگ
- بلا کشان محبت
- آہوان صحرا
- غز لان رعنا
- شجر ہائے سایہ دار
- یاران دیرینہ
سفرنامے ترميم
- ارض پاک سے دیار فرنگ تک
- ترکی میں دو سال
- دیار حبیب میں چند روز
- لندن کی ڈائری
آپ بیتی ترميم
- یاد عہد رفتہ
ڈاکٹر عبادت بریلوی کے فن و شخصیت پر تحقیقی مقالات ترميم
ڈاکٹر عبادت بریلوی کی ادبی خدمات کا تنقیدی جائزہ (پی ایچ ڈی مقالہ)، روبینہ شائستہ وحید، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، 2005ء
وفات ترميم
ڈاکٹر عبادت بریلوی 19 دسمبر، 1998ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور میں سمن آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔[1][2][3]
حوالہ جات ترميم
- ^ ا ب ڈاکٹر عبادت بریلوی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
- ^ ا ب پ ت عقیل عباس جعفری: پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 755
- ^ ا ب پ ت "میرے بے لوث بھیا، صبیحہ خان، اردو ڈائجسٹ، لاہور". 27 اپریل 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ. اخذ شدہ بتاریخ 16 جنوری 2016.