جامعہ سلفیہ فیصل آباد[1][2] پاکستان کے صوبہ پنجاب فیصل آباد کی علمی دینی درس گاہ ہے۔[3]

تاریخ تاسیس

ترمیم

اپریل 1955ء کو جامعہ سلفیہ فیصل آباد کا سنگ بنیاد رکھا گیا،

محل وقوع

ترمیم

جامعہ سلفیہ شیخوپورہ روڈ محلہ حاجی آباد میں واقع ہے۔ اس کا کل رقبہ ساڑھے چار ایکڑ پر مشتمل ہے۔ ساڑھے تین ایکڑ پر جامع مسجد، دفاتر، کلاس رومز، طلبہ کی رہائش گاہیں،لائبریری ہال، فیصل ہال، طعام گاہ، مہمان خانہ ڈسپنسری، درجہ تخصص کی عمارت بنی ہوئی ہیں۔ جبکہ ایک ایکڑ رقبہ خالی ہے۔

مؤ سسین جامعہ

ترمیم

مولانا سید محمد داود غز نوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، قدوة المساکین میاں محمد باقر،، امیرالمجاہدین مولانا محمد عبد اللہ اور حکیم نور الدین مرحوم ومغفور شامل ہیں۔

صدر وناظمین

ترمیم

جامعہ سلفیہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک جامعہ سلفیہ کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ مولانا سید محمد داود غزنوی جس کے پہلے صدر مقررہوئے۔ جب کہ مولانا محمد اسمعیل سلفی ناظم مقرر ہوئے۔ کمیٹی کے باقی ارکان درج ذیل تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی ، مولانا محمد اسحاق چیمہ ، مولانا عطاءاللہ حنیف بھوجیانی ، میاں فضل حق، مولانا محمد صدیق، حاجی محمد اسحاق حنیف، مولانا عبید اللہ احرار اور میاں عبد المجید تھے۔ مولانا غزنوی بخیر وخوبی اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ جماعتی مصروفیات اور بعض دیگر عوارض کی وجہ سے آپ نے ازخود یہ منصب میاں فضل حق کے سپرد کر دیا۔ آپ 1961 سے لے کر اپنی رحلت 13 جنوری 1996 تک جامعہ سلفیہ کے صدر رہے۔ میاں فضل حق کی رحلت کے بعد جامعہ سلفیہ ٹرسٹ نے بالاتفاق ان کے صاحبزادے میاں نعیم الرحمن کو ٹرسٹ کا صدر کا مقرر کیا گیا۔

تاریخ

ترمیم

4/5 اپریل 1955ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی سالانہ کانفرنس لائل پور(فیصل آباد) مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی (م1960ء) کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں اہل حدیث جماعت کا ایک دار العلوم قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا محمدحنیف ندوی (م1987ء) نے جامعہ سلفیہ نام تجویز کیا جو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا اور یہ بھی منظور کیا گیا کہ 'جامعہ سلفیہ' لائل پور (فیصل آباد) میں ہی قائم کیا جائے۔ چنانچہ 4 اپریل 1955ء کو جامعہ سلفیہ کا سنگ ِبنیاد فیصل آباد کے مشہور بزرگ حکیم نور الدین مرحوم نے نصب فرمایا۔

ایک سال بعد ارکانِ جمعیة اہل حدیث پاکستان نے فیصلہ کیا کہ جب تک جامعہ سلفیہ کی عمارت تعمیر نہیں ہوجاتی، لاہور میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے اس کے لیے اپنے دار العلوم 'تقویة الاسلام' کاایک حصہ پیش کر دیا۔

چنانچہ 17 مئی 1956ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ سلفیہ کا آغاز جلد کردینا چاہیے۔ اسی طرح 21 جون 1956ء کوجمعرات کے روز تقویة الاسلام کے ہال میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا افتتاح ہوا۔ اس کے ساتھ ہی 22 جون 1956 فیصل آباد کی جامع مسجد اہل حدیث (امین پور بازار) میں جامعہ سلفیہ کے ثانوی درجے کا افتتاح ہوا۔ اور اس درجہ کے لیے مولانا محمد اسحق چیمہ اور مولانا محمد صدیق فیصل آباد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ میاں محمد باقر مرحوم نے اپنے مدرسہ خادم القرآن والحدیث جھوک دادو کے ایک استاد مولانا محمدحسین طور کی خدمات بھی درجہ ثانوی کے سپرد کر دیں۔ 1958ء میں جامعہ سلفیہ اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہو گیا۔ جامعہ سلفیہ کی مسند ِشیخ الحدیث پرجو علمائے کرام فائز رہے، ان کے اسمائے گرامی بہ ترتیب یہ ہیں:

جامعہ سلفیہ میں جن اساتذئہ کرام نے مختلف اوقات میں تدریس فرمائی ، ان میں سے چند مشہور علمائے کرام درج ذیل ہیں:

جامعہ سلفیہ کے ناظم تعلیمات درج ذیل علمائے کرام رہے :

جامعہ سلفیہ کے مہتمم مندرجہ ذیل حضرات رہے

جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے علمائے کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جامعہ سلفیہ کا معادلہ مدینہ یونیورسٹی سے ہے۔ وفاق المدارس سلفیہ کا صدر دفتر بھی جامعہ سلفیہ میں قائم ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "جامعہ سلفیہ فیصل آباد … تصاویر" 
  2. "شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد مولانا یونس بٹ بھی خالق حقیقی سے جاملے." 
  3. "جامعہ سلفیہ(فیصل آباد) دینی و عصری علوم کا ایک قدیمی مثالی ادارہ"