عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی یا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی یا مولانا عطاء اللہ حنیف محدث بھوجیانی یا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی[1] (ولادت:1910ء - وفات: 3 اکتوبر 1987ء) [2]ممتاز علمائے اہل حدیث تھے۔[3] مولانا عطاء اللہ ایک عالم دین،[4] محدث، محقق، ادیب، مورخ، مدرس اور منصف تھے۔[3][5]
عطاء اللہ حنیف بھوجیانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1910ء |
وفات | 3 اکتوبر 1987ء (76–77 سال) لاہور |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، صحافی ، عالم ، مورخ ، محدث ، معلم ، عالم |
درستی - ترمیم |
مولانا عطاء اللہ حنیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ، حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر اور شاہ والی اللہ دہلوی کی تصانیف کے شیدئی اور دلدادہ تھے اور ایمہ کرام کی تصانیف کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔[3]
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیممولانا عطاء اللہ 1910ء ضلع امرتسر کی تحصیل ترنتارن کے قصبے بھوجیان میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا جو آپ نے مولوی عبد الکریم بھوجیانی سے پڑھا۔[3] تکمیل تعلیم کے بعد آپ گوجرانوالہ چلے گئے اور وہاں پر آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ کچھ وقت بعد آپ گوجرانوالہ سے ریاست فریدکوٹ کے قصبے کپورتھلہ گئے اور وہاں پر آپ نے تین سال تک تدریسی خدمات انجام دیا۔[3]
کارہائے نمایاں
ترمیممولانا عطااللہ حنیف بھوجیانی ایک عالم بےبدل کی حیثیت سے اپنا الگ مقام رکھتے تھے۔ انہوں نے لاہور کے علاقہ شیش محل روڈ پر ایک مدرسہ قائم کیا جہاں بچوں کو حفظ کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی عمارت سے الاعتصام کے نام سے ایک مذہبی مجلہ جاری کیا ۔ یہی پر ایک لائبریری قائم کی جو بطور ریسرچ لائبریری آج بھی فعال ہے اور اس میں عربی کی نادر کتب کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ مولانا کی زندگی میں ہی ان کے صاحبزادے حافظ احمد شاکر مجلہ الاعتصام اور لائبریری کا انتظام و انصرام دیکھتے تھے۔ معروف عالم دین اور سابق رکن رویت ہلال کمیٹی حافظ صلاح الدین یوسف اورشاعرِ اسلام علیم ناصری سمیت دیگر جید علما نے طویل عرصہ تک اس لائبریری سے استفادہ کیا۔ حافظ احمد شاکر کے بعد ان کے صاحبزادے اور مولانا عطااللہ حنیف کے پوتے عباد شاکر لائبریری کے انتظامات دیکھتے ہیں جبکہ مولانا عطااللہ حنیف کے پڑپوتے اور عباد شاکر کے دو صاحبزادے انتہائی خوش الحان قاری ہیں اور ان کی اسی مہارت کے بنیاد پر انہیں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں داخلہ دیا گیا تھا۔ مولانا عطااللہ حنیف کا تعلق اچھے مذہبی گھرانے سے ہے جو نسل در نسل دین کی خدمت میں مصروف ہے ۔ اس وقت لاہور میں مولانا عطااللہ حنیف کے چوتھی پیڑھی دین کی خدمت میں مصروف ہے۔
جسٹس وفاقی شرعی عدالت
ترمیممولانا عطااللہ حنیف کے علم و فضل کے پیش نظر انہیں علمی و ادبی حلقوں میں نمایاں مقام تو حاصل ہی تھا حکومتی سطح پر بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ ضیا الحق کے دورِ مارشل لا میں انہیں متعدد بار وفاقی شرعی عدالت میں بطور صدر نشین عہدہ پیش کیا گیا لیکن انہوں نے ہر مرتبہ انکار کیا جس پر خود ضیاالحق نے انہیں یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست پیش کی تو انہوں نے صدر نشین کا عہدہ قبول نہیں کیا البتہ بطور جسٹس وفاقی شرعی عدالت خدمات سرانجام دیں۔ مولانا عطا اللہ حنیف نے سرکاری عہدہ تو قبول کیا لیکن حکومت کی طرف سے کسی قسم کی مراعات لینے سے انکار کیا اور اپنی تمام عمر شیش محل روڈ کے اسی چھوٹے سے گھر میں بسر کی ۔
تصانیف
ترمیممولانا عطاء اللہ حنیف نے درس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ کی تصانیف عربی اور اردو میں ہیں۔[6]
- حواشی، تخریج و تنقیح و تعلیق تفسیر احسن التفسیر
- حواشی الفوز الکبیر (عربی)
- حواشی اصول تفسیر ابن تیمیہ
- التعلیقات السلفیہ
- رہنماے حجاج
- پیارے رسول کی پیاری دعائیں
مشہور تصانیف کا مختصر تعارف
ترمیممولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی مشہور تصانیف کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔[6]
التعلیقات السلفیہ
ترمیمیہ کتاب صحاح ستہ کے رکن امام ابو عبد الرحمان احمد بن شعيب النسائی کی سنن نسائی کی شرح بزبان عربی ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1956ء میں شائع ہوئی۔
رہنماے حجاج
ترمیماس کتاب میں حج کے تمام مسائل اور اس کی اقسام، مناسک حج اور دوران حج پڑھی جانے والی دعائیں اور حرمین شریفین کے تاریخی مقامات پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ 1955ء میں شائع ہوئی۔
پیارے رسول کی پیاری دعائیں
ترمیمیہ کتاب دعائے ماثوره کی مجموعہ پر مشتمل ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ 2000ء تک تقریباً 1.5 لاکھ تعداد شائع ہو چکی ہے۔
وفات
ترمیممولانا عطاء اللہ پر 1983ء میں فالج کا حملہ ہوا۔ تاہم مطالعہ آخر تک جاری رہا۔ آپ کا انتقال 3 اکتوبر 1987ء مطابق 1408ھ کو پاکستان کے شہر لاہور میں ہوا۔ مولانا عطااللہ حنیف کے انتقال کے وقت ایک معروف دیوبندی عالم مولانا عبدالمجید ہزاروی جو حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کے خاص شاگرد تھے نے کہا اس علاقہ میں مولانا عطا اللہ حنیف کی شخصیت کی بےشمار برکات تھیں جو ان کے ساتھ ہی اٹھ گئی ہیں۔ آج علم و فضل کا ایک روشن ستارہ غروب ہوا۔[7][8]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ʻAbdurrashīd ʻIrāqī، عبدالرشيد عراقى (2001)۔ بر صغير پاك و هند ميں علمائے اهل حديث كے علمى كارنامے /۔ علم و عرفان پبلشرز،۔ صفحہ: 202
- ↑ Muḥammad Mustaqīm Salafī (1992)۔ Jamāʻat-i Ahleḥadīs̲ kī taṣnīfī k̲h̲idmāt: nuqūsh-i māz̤ī۔ Idārah al-Baḥūs̲ al-Islāmiyah va al-Daʻvah va al-Iftaʼ Biljāmiʻah al-Salafiyah۔ صفحہ: 53
- ^ ا ب پ ت ٹ 40 Ahl-e Hadith Scholars from the Indian Subcontinent (بزبان انگریزی)۔ Independently Published۔ 2019-07-18۔ صفحہ: 376۔ ISBN 978-1-0810-0895-6
- ↑ "طاق راتوں میں شب بیداری کا مسنون طریقہ : عطاء اللہ حنیف بھوجیانی"[مردہ ربط]
- ↑ "آثار حنیف بھوجیانیؒ چارجلدوں میں شائع ہوگئی"۔ روزنامہ نوائے وقت
- ^ ا ب 40 Ahl-e Hadith Scholars from the Indian Subcontinent (بزبان انگریزی)۔ Independently Published۔ 2019-07-18۔ صفحہ: 382 تا 383۔ ISBN 978-1-0810-0895-6
- ↑ عليم ناصرى (1995)۔ شاهنامه بالاكوٹ: تحريک جهاد كى داستان۔ اداره مطبوعات سليمانى،۔ صفحہ: Volume 1 – صفحہ 17
- ↑ 40 Ahl-e Hadith Scholars from the Indian Subcontinent (بزبان انگریزی)۔ Independently Published۔ 2019-07-18۔ صفحہ: 384۔ ISBN 978-1-0810-0895-6