ڈھاکہ یونیورسٹی

(جامعہ ڈھاکہ سے رجوع مکرر)

ڈھاکہ یونیورسٹی ((بنگالی: ঢাকা বিশ্ববিদ্যালয়)‏) جدید بنگلادیش کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہے جو بنگلہ دیش کے دار الحکومت ڈھاکہ شہر میں قائم ہے۔ سنہ 2017ء کی بنگلہ دیش جامعات کی درجہ بندی میں ڈھاکہ یونیورسٹی پہلے نمبر پر تھی۔[1] برطانوی راج میں سنہ 1921ء میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ جدید بنگلہ دیش کی تاریخ و تعمیر میں اس یونیورسٹی کا انتہائی اہم کردار ہے۔[2][3][4][5] تقسیم ہند کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی پاکستان کی ترقی پسند اور جمہوری تحریکوں کا مرکز توجہ بن گئی تھی۔ بعد ازاں بنگالی قومیت اور آزادی بنگال میں اس یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کا مرکزی اور ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی
ঢাকা বিশ্ববিদ্যালয়
شعارসত্যের জয় সুনিশ্চিত
اردو میں شعار
سچ کی جیت گی
قسمعوامی جامعہ
قیام1921ء (1921ء)
چانسلرمحمد عبد الحامد
وائس چانسلرمحمد اختر الزمان
تدریسی عملہ
2,156+
انتظامی عملہ
3,887
طلبہ30,015+
انڈر گریجویٹ23,620+
پوسٹ گریجویٹ5,362+
ڈاکٹریٹ کے طلبہ
764+
دیگر طلبہ
269+
مقامڈھاکہ، بنگلہ دیش
کیمپسشہری علاقہ، 240 ہیکٹر (600 acre) (سوائے انسٹی ٹیوٹ آف لیدھر انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے۔)
ویب سائٹdu.ac.bd; univdhaka.edu

یونیورسٹی کے نمایاں فضلا میں فضل الرحمن خان، محمد یونس (2006ء کے امن نوبل انعام یافتہ)، محمد شہید اللہ (مشہور معلم اور ماہر لسانیات)، نتیاگرو نور المومن (ڈھاکہ یونیورسٹی کے اولین طلبہ اور اساتذہ میں سے ایک)، سراج الاسلام چودھری (بنگلہ دیش کے سرکردہ دانشور اور مصنف)، رحمن سبحان (ماہر معاشیات)، محمد عطاء الکریم (ماہر طبیعیات)، ابو الفاتح، بدھادیب بوس (بیسویں صدی کے بنگالی شاعر) اور شیخ مجیب الرحمن (جدید بنگلہ دیش کے بانی) قابل ذکر ہیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کسی درجے میں ستیندر ناتھ بوس، وجے راگھون اور قاضی نذر الاسلام سے بھی منسلک رہی ہے۔[6]

فی الحال ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش کی سب سے بڑی عوامی یونیورسٹی ہے جس میں 33000 طلبہ زیر تعلیم ہیں اور 1800 شعبے مصروف عمل ہیں۔ ایشیا ویک نے اسے ایشیا کی سو فائق یونیورسٹیوں میں شمار کیا ہے۔[7] یونیورسٹی اپنے قیام ہی سے تشدد، سیاست اور تقسیم کا شکار رہی ہے۔[8]

تاریخ

ترمیم

ڈھاکہ یونیورسٹی کے قیام سے پہلے اس کی زمین کے اطراف میں ڈھاکہ کالج کی کچھ متروک عمارتیں موجود تھیں۔ سنہ 1873ء میں کالج بہادر شاہ پارک میں اور بعد ازاں کرزن ہال میں منتقل ہو گیا تھا جو بعد میں یونیورسٹی کا سب سے پہلا ادارہ بنا۔[9] دراصل ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام سنہ 1905ء کی تقسیم بنگال کی منسوخی کی تلافی کے طور پر عمل میں آیا تھا۔[10]

حوالہ جات

ترمیم
  1. The ResearchHUB (2017)۔ "Bangladesh University Ranking 2017"۔ The ResearchHUB۔ 18 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مئی 2018 
  2. "Mukherjee 'emotional' while receiving degree in Dhaka"۔ دی اکنامک ٹائمز۔ 04 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2014 
  3. "In Loving Memory of Samson H. Chowdhury,one of the greatest entrepreneurs the world has ever known"۔ Worldfolio - AFA PRESS۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2014 
  4. "Nawab Ali Chowdhury National Award, 2013"۔ The News Today۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 جنوری 2014 
  5. "DU Day"۔ Banglanews24.com۔ 03 دسمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2013 
  6. "Satyendra Nath Bose at Dhaka University"۔ Banglapedia۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 فروری 2015 
  7. "Asia's Best Universities 2000: University of Dhaka"۔ Asiaweek۔ 2000۔ 28 جنوری 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2013 
  8. Kamrul Hasan Khan (16 August 2010)۔ "Student politics eroding Bangladesh campus life"۔ Google۔ Agence-France Presse۔ 28 فروری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2013 
  9. Sajahan Miah (2012)۔ "University of Dhaka"۔ $1 میں Sirajul Islam and Ahmed A. Jamal۔ Banglapedia: National Encyclopedia of Bangladesh (Second ایڈیشن)۔ Asiatic Society of Bangladesh 
  10. Gordon Johnson, "Partition, Agitation and Congress: Bengal 1904 To 1908," Modern Asian Studies, (May 1973) 7#3 pp 533–588