محمد یونس
پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس (Professor Dr. Muhammad Yunus) تاریخ پیدائش 28 جون، 1940ء بنگلہ دیش کے مسلمان بنکار ہیں۔ وہ انتہائی غریب لوگوں کو جو عام بنکاری نظام سے قرضہ لینے کے اہل نہیں کو چھوٹے قرضے دینے کے نظام کے بانی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ گرامین بینک کے بانی بھی ہیں۔ 2006ء میں ان کو اور ان کے بنک کو مشترکہ طور پر غریب لوگوں کی بہتری کے لیے کام کرنے پر اور سماجی خدمات کے شعبہ میں نوبل انعام دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر یونس انفرادی طور پر بھی کئی بین الاقوامی اعزازات بشمول بین الاقوامی خوراک کا انعام (ورلڈ فوڈ پرائز World Food Prize) جیت چکے ہیں۔ وہ بینکر ٹو دی پوور (Banker to the Poor) کے مصنف اور گرامین بنک کے بانی بھی ہیں۔
محمد یونس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 28 جون 1940ء (84 سال) |
شہریت | عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش |
عملی زندگی | |
مادر علمی | وینڈربلٹ یونیورسٹی جامعہ ڈھاکہ جامعہ کولوراڈو |
پیشہ | ماہر معاشیات ، کارجو ، استاد جامعہ ، بینکار |
مادری زبان | بنگلہ |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [1][2]، بنگلہ |
شعبۂ عمل | ماہر معاشیات ، کارجو ، استاد جامعہ ، بینکار |
ملازمت | جامعہ ڈھاکہ |
اعزازات | |
نائٹ گرینڈ کراس آف آرڈر آف میرٹ جمہوریہ اطالیہ (2010)[3] کانگریشنل گولڈ میڈل (2010)[4] صدارتی تمغا آزادی (2009)[5] آرڈر آف دی لبرٹور (2007)[6] نشان عبد العزیز السعود (2007) نوبل امن انعام (2006)[7][8] فوکوکا ایشیائی ثقافت انعام (2001)[9] سڈنی امن انعام (1998) اندرا گاندھی انعام (1998) رامن میگ سیسے انعام (1984) فل برائٹ اسکالرشپ (1965) آرڈر آف میرٹ جمہوریہ اطالیہ |
|
دستخط | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
وہ 8 اگست 2024 سے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مشاور اعظم (چیف ایڈوائزر) کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تعلیم
ترمیممحمد یونس سوداگر 28 جون، 1940ء کو پیدا ہوئے۔ وہ ایک بینکر اور ماہر معاشیات ہیں وہ اپنے والدین کے نو بچوں میں سے تیسرے ہیں۔ ان کے والد حاجی دلہا میاں سوداگر صاحب سنار تھے۔ محمد یونس کا بچپن گاؤں باتھوا ہی میں گذرا۔ 1944ء میں ان کا خاندان چٹگاؤں شہر میں منتقل ہو گیا۔ 1949ء میں ان کی والدہ ایک نفسیاتی عارضہ میں مبتلا ہوگئیں۔ انھوں نے میٹرک کا امتحان چٹاگانگ کالجیٹ اسکول سے پاس کیا۔ مشرقی پاکستان کے مجموعی 39000 ہزار طلبہ و طالبات میں سے ان کی پوزیشن 16 ویں تھی۔ بعد ازاں انھوں نے چٹاگانگ کالج میں داخلہ لیا جہاں وہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں پیش پیش نظر آتے تھے۔ 1957ء میں وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخل ہو گئے۔ 1960ء میں بی اے اور 1961ء میں ایم اے کر لیا۔
گریجویشن کرنے کے بعد محمد یونس بیورو آف اکنامکس میں ریسرچ اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ ایم اے کے بعد انھیں چٹاگانگ کالج ہی میں معاشیات کے لیچکرر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ اسی دوران میں انھوں نے ایک پیکجنگ فیکٹری بھی قائم کر لی جس میں انھوں نے خاصا منافع کمایا۔ 1965ء میں انھیں فل برائٹ سکالر شپ کی پیشکش ہوئی چنانچہ وہ امریکا چلے گئے۔ انھوں نے وینڈر بلٹ یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر لی۔
خدمات
ترمیم1971ء میں جب سقوط مشرقی پاکستان ہوا تو وہ ابھی امریکا ہی میں تھے۔ انھوں نے وہاں دیگر بنگالیوں کے ساتھ مل کر سٹیزن کمیٹی اور بنگلہ دیش انفارمیشن سنٹر قائم کیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد محمد یونس وطن واپس آ گئے اور چٹاگانگ یونیورسٹی کے اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن گئے۔ ان کے ساتھ انھوں نے اپنے معاشرے سے غربت کے خاتمے کی کوششیں شروع کر دیں۔
انھوں نے ’’رورل اکنامک پروگرام‘ُ‘ شروع کیا۔ یہ ایک ریسرچ پراجیکٹ تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ انھوں نے اس حوالے سے ایک زوردار مہم چلائی۔ جنرل ضیاء الرحمن بر سر اقتدار آئے تو انھوں نے ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔
1976ء میں انھیں خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلا قرضہ اپنی جیب سے دیا جس کی مالیت 27 ڈالر بنتی تھی۔ اس رقم سے گائوں کی 42 خواتین نے مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کیے۔ بعد ازاں یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس سلسلے نے ملکی برآمدات درآمدات پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔
غربت کے خاتمے کے لیے چھوٹے قرضے دینے کا آئیڈیا نیا نہیں تھا۔ اس کے سب سے پہلے خالق پاکستان اکیڈمی فار رورل ڈیویلپمنٹ کے بانی ڈاکٹر اختر حمید خان تھے۔ روایتی بینک اس آئیڈیا پر کام کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے اپنے تحفظات تھے تاہم محمد یونس کا کہنا تھا کہ غریبوں کو آسان اور چھوٹے قرضے دیے جائیں تو نہ صرف وہ بروقت واپس کریں گے بلکہ اس سے ان کی اور ملک کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔
گرامین بنک
ترمیماسی اثنا میں محمد یونس حکومت کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ دسمبر 1976ء میں انھیں اس حوالے سے ایک غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی جب سرکاری جنتا بنک نے انھیں قرض دینے کی ہامی بھرلی۔ اس طرح انھوں نے ایک ادارہ قائم کر لیا جسے دوسرے بنکوں نے بھی قرضے فراہم کرنے شروع کر دیے۔ 1982ء میں اس دارے کے ممبرز کی تعداد 28 ہزار تھے۔ یکم اکتوبر، 1983ء کو یہ ادارہ باقاعدہ ایک بنک کی صورت اختیار کر گیا۔ اس کا نام ’’گرامین بنک‘‘ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔ اس دوران محمد یونس کا سامنا بائیں بازو کے کٹر لوگوں سے بھی ہوا اور تنگ نظر مولویوں سے بھی مڈبھیڑ ہوئی جو کہتے تھے کہ وہ کسی ایسے فرد کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے جو گرامین بنک سے قرضہ لے گا۔ ان مخالفتوں کے باوجود گرامین بنک کے حجم میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جولائی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بنک 74 لاکھ لوگوں کو 6 اعشاریہ 38 ارب ڈالر کا قرضہ جاری کرچکا تھا۔
80 کی دہائی کے اواخر میں بنک نے کچھ نئے پراجیکٹ شروع کیے یعنی مچھلیوں کے تالاب اور ٹیوب ویل لگانا شروع کیے۔ بعد ازاں ایگریکلچر فاؤنڈیشن کی صورت میں باقاعدہ مکمل ادارے بن گئے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر کئی ادارے بھی قائم کر دیے گئے جن میں گرامین سافٹ وئیر لمیٹٹڈ گرامین سائبر لمیٹڈ، گرامین نیٹ وئیر، گرامین فون بنگلہ دیش کی سب سے بڑی نجی کمپنی ہے۔ گرامین بنک سے قرضہ حاصل کرنے والوں میں خواتین کی شرح 94 فی صد ہے۔ خواتین کو قرضے دینے میں اس لیے خوشی محسوس کی جاتی ہے کہ خواتین خاندانوں کی فلاح و بہبود کے لیے زیادہ مخلص ہوتی ہیں۔
2006ء میں محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ محمد یونس پہلے بنگلہ دیشی اور تیسرے بنگالی ہیں جنھوں نے یہ نوبل ایوارڈ حاصل کیا۔ جب اس ایوارڈ کی خبر نشر ہوئی تو محمد یونس نے اس ایوارڈ سے ملنے والی رقم 14 لاکھ ڈاکٹر میں سے ایک حصے سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا جو غریبوں کے لیے انتہائی سستی اور اعلٰی معیار کی خوراک تیار کرے۔
محمد یونس کو نوبل ایوارڈ دلانے کے لیے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اہم کردار ادا کیا ۔کیلیفورنیا یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے بل کلنٹن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر یونس ایسے شخص ہیں جنہیں بہت پہلے نوبل انعام مل جانا چاہیے تھا۔ معروف مغربی جریدے اکانومسٹ نے محمد یونس کو ایوارڈ دینے کی مخالفت کی۔ اس کا لکھنا تھا کہ زیادہ بہتر ہوتا اگر نوبل ایوارڈ دینے والی کمیٹی یہ اعلان کر دیتی کہ اس انعام کا کوئی حقدار نہیں۔
2006ء کے اوائل میں محمد یونس اور سول سوسائٹی کے دیگر لوگوں نے ایک مہم چلائی جس میں کہا گیا کہ آئندہ انتخابات میں صرف دیانت دار اور صاف ستھرے لوگوں کو ہی امیدوار ہونا چاہیے۔ اس سال کے اواخر میں انھوں نے سیاست میں آنے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ 11 فروری، 2007ء کو محمد یونس نے عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا جس میں کہا گیا کہ انھیں رائے دی جائے کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر کیسے اچھی حکومت اور موزوں قیادت تیار کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری، 2007ء کو انھوں نے ’’ناگرگ شکتی ‘‘ کے نام سے پارٹی قائم کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ پارٹی فوج کی حمایت یافتہ ہے۔ تاہم 3 مئی کو محمد یونس نے ملک کے نگران سربراہ فخر الدین احمد سے ملاقات کرکے اپنی سیاسی منصوبے ختم کرنے کا اعلان کیا۔
1967ء میں جب محمد یونس وینڈربلٹ یونیورسٹی میں تھے کہ ان کی روسی طالبہ ویرافوروسٹینکو سے ملاقات ہوئی۔ وہ روسی ادب کی طالبہ تھی۔ 1970ء میں نیو جرسی میں ان کی شادی ہو گئی۔ 1979ء میں ان کی بیٹی مونیکا یونس پیدا ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد ان کی طلاق ہو گئی۔ دراصل ویرا کو بنگلہ دیش کا ماحول پسند نہیں آیا تھا اور وہ واپس جانا چاہتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بیٹی کی پرورش افروز سے ہوئی جو مانچسٹر یونیورسٹی میں طبیعیات کے شعبے میں ریسرچر تھیں۔ محمد یونس کی اب تک پانچ تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ جس میں زیادہ تر دنیا میں غربت کے خاتمہ کے موضوع پر ہیں۔
ذاتی زندگی
ترمیممحمد یونس بن حاجی محمد دلہا میاں بن حاجی محمد نضوح میاں سوداگر کا تعلق مسلمان خاندان سے ہے اور وہ فعال طور پر ایک روایتی خاص سنی عقیدے کو ظاہر کرتے رہتے ہیں۔وہ عوام کو براہ راست اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتا ہے،[10][11] جسے وہ مدد اور حمایت کا سب سے بڑا ذریعہ،[12] اور تقدیر کا منتظم تسلیم کرتا ہے.[13]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13332172b — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/152490595
- ↑ Yunus Prof. Muhammad
- ↑ تاریخ اشاعت: 5 مارچ 2013 — House & Senate Leaders Announce Gold Medal Ceremony for Professor Muhammad Yunus
- ↑ ناشر: Whitehouse.gov — تاریخ اشاعت: 30 جولائی 2009 — President Obama Names Medal of Freedom Recipients
- ↑ تاریخ اشاعت: 11 مئی 2007 — Chávez condecoró a Muhammad Yunus con orden "Libertador" en primera clase — سے آرکائیو اصل
- ↑ ناشر: نوبل فاونڈیشن
- ↑ ناشر: نوبل فاونڈیشن — تاریخ اشاعت: اپریل 2019
- ↑ ناشر: فوکوکا ایشیائی ثقافت انعام
- ↑ "আমরা পদে পদে বাধাপ্রাপ্ত হচ্ছি : ড. ইউনূস"۔ کال بیلا (بزبان بنگالی)۔ 2 April 2024۔ 15 اگست 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2024
- ↑ "আল্লাহর কাছে ফরিয়াদ করেন, বালা-মুসিবত থেকে আমরা বাঁচি: ড. ইউনূস" [اللہ سے فریاد کریں کہ ہم بلا مصیبت سے بچ جائیں: ڈاکٹر یونس]۔ یگانتر (بزبان بنگالی)۔ 2 April 2024
- ↑ "শপথ নেওয়ার পর জাতির উদ্দেশে যা বললেন ড. ইউনূস" [ڈاکٹر یونس نے حلف اٹھانے کے بعد قوم سے کیا کہا؟]۔ آر ٹی وی (بزبان بنگالی)۔ 8 August 2024۔ 15 اگست 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2024
- ↑ اے ایم محمد بہاء الدین (11 August 2024)۔ "প্রকৃত স্বাধীনতা আমরা উপভোগ করবো ইন শা আল্লাহ" [ہم حقیقی آزادی حاصل کریں گے اللہ کے حکم سے۔]۔ روزنامہ انقلاب۔ 10 اگست 2024 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اگست 2024
علامتیہ نامکمل | پیش نظر صفحہ نوبل انعام یافتگان سے متعلق موضوع پر ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں مزید اضافہ کرکے ویکیپیڈیا کی مدد کرسکتے ہیں۔ |