جگر مراد آبادی
جگر مرادآبادی کا اصل نام علی سکندر اور تخلص جگر تھا۔ بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مراداباد میں پیدا ہوئے اور اسی لیے مرادآبادی کہلائے۔ اردو کے مشہور شاعر گذرے ہیں۔
جگر مراد آبادی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | علی سکندر |
پیدائش | 6 اپریل 1890ء [1] مراد آباد |
وفات | 9 ستمبر 1960ء (70 سال)[1] گونڈہ، اترپردیش |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
صنف | غزل |
پیشہ | مصنف ، شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
اعزازات | |
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ (1958) |
|
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
آپ بیسویں صدی کے اردو کے مشہور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ نظموں کو جمع کرنے پر ایوارڈ ملا۔
پیدائش
ترمیمآپ 6 اپریل 1890ء کو مرادآباد میں پیدا ہوئے۔ ۔ آپ کم عمر میں ہی اپنے والد سے محروم ہو گئے اور آپ کا بچپن آسان نہیں تھا۔
تعلیم
ترمیمآپ نے مدرسے سے اردو اور فارسی سیکھی۔ شروع میں آپ کے شاعری کے استاد رسہ رامپوری تھے۔ آپ غزل لکھنے کے ایک اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ بلا کے مے نوش تھے مگر بڑھا پے میں تا ئب ہو گئے تھے -
وفات
ترمیممنسوبات
ترمیمگوندا میں ایک رہائشی کالونی کا نام آپ کے نام پر 'جگر گنج ' رکھا گیا ہے۔ وہاں ایک اسکول کا نام بھی آپ کے نام پر جگر میموریل انٹر کالج رکھا گیا ہے۔
شاعری
ترمیمجگر مرادآبادی اردو شاعری کے چمکتے ستاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی شاعری ان کی رنگارنگ شخصیت،رنگ تغزّل اور نغمہ و ترنم کی آمیزش کا نتیجہ ہے جس نے انھیں اپنے زمانے بے حد مقبول اور ہردلعزیز بنا دیا تھا۔[2] جگر کوشاعری کا ذوق بچپن سے ہی تھا کیونکہ والد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے اور بے حد مقبول تھے۔ ان کا دیوان کلیات جگر کے نام سے بازار میں دستیاب ہے جو ان کی غزلوں، نظموں قصائد و قطعات کا مجموعہ ہے۔ اس دیوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا دیباچہ آل احمد سرور نے لکھا ہے جنھوں نے کلیات کا عکس اتار کر رکھ دیا ہے۔
آل احمد سرور کہتے ہیں:
” | جگر ایک رومانی شاعر ہیں۔ رومان کسی نہ کسی حقیقت کو ہی خوابوں میں پیش کرتا ہے۔ جگر کے یہاں بھی خواب اور حقیقت کی دھوپ چھاؤں نظر آتی ہے۔[3] | “ |
جگر کو مرزا غالب اور دیگر شعرا کی طرح یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے کئی اشعار ضرب المثل بن گئے ہیں اور برسوں گذر جانے کے بعد ہیں زبان پر تازہ رہتے ہیں۔ مثلاً
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
تصانیف
ترمیم- داغ جگر (1922ء)
- شعلہ طور
- آتشِ گل
نمونۂ کلام
ترمیمکسی صورت نمودِ سوزِ پنہانی نہیں جاتی
بھجا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوالیتی ہے مانی نہیں جاتی
چلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کرمٹے جاتے ہیں گرگرکر
حضورِ شمع پروا نوں کی نادانی نہیں جاتی
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آ ہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیا نی نہیں جاتی
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کیے جا رہا ہوں میں
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں‘جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں
ترا درد دردِ تنہا‘مرا غم غمِ زمانہ
مرے دل کے ٹوٹنے پر ‘ہے کسی کو ناز کیا کیا
مجھے اے جگر مبارک‘یہ شکستِ فاتحانہ
بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے
ضرور کوئی کمی ہے جو پائی جاتی ہے