پاکستان کے ممتاز سیاست دان۔ ملتان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لاہور کے ایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی سیاست روایتی جاگیر دارانہ سیاست رہی اور پنجاب کے بڑے سیاسی گھرانوں سے ان کے ذاتی مراسم رہے۔ حامد رضا گیلانی 1962ء میں پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پارلیمانی سیکرٹری بنے۔ 1965ء میں وہ کنوینشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر دوبارہ رکن قومی اسمبلی بنے اور صدر ایوب خان نے انھیں دوبارہ پارلیمانی سیکرٹری بنایا۔ حامد رضا کو اس وقت انھیں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی دوستوں میں سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے غلام مصطفے کھر کو ذو الفقار علی بھٹو سے متعارف کرایا جو بعد میں پنجاب کے ایک اہم رہنما بن کر ابھرے۔ جب ذو الفقار علی بھٹو ایوب خان سے الگ ہوئے تو حامد رضا گیلانی کنوینشن مسلم لیگ میں ہی شامل رہے تاکہ ملتان میں ان کا حریف قریشی گروپ حکومت سے مل کر ان کی پوزیشن کو کمزورنہ کرسکے۔ تاہم ایوب خان کے آخری دنوں میں وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے کیونکہ ان کے بارے میں خیال تھا کہ وہ خفیہ طو پر بھٹو کے ساتھ ہیں۔ گیلانی خاندان کے سربراہ اور اپنے بڑے بھائی سید علمدار گیلانی، جن کے بیٹے یوسف رضا گیلانی پیپلز پارٹی کے نائب صدر ہیں، کی مخالفت کی وجہ سے حامد رضا گیلانی پیپلز پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ انیس سو ستر کے انتخاب میں انھیں مسلم لیگ (قیوم گروپ) کے ٹکٹ پر شکست ہوئی۔

حامد رضا گیلانی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 17 اگست 1936ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 24 جنوری 2004ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان پیپلز پارٹی   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ اوکسفرڈ
ایچی سن کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سفارت کار ،  سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جب ذو الفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو حامد رضا گیلانی کچھ عرصہ پس منظر میں رہنے کے بعد انھیں کینیا میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا گیا جہاں وہ 1976ء تک رہے۔ قومی اسمبلی کے لیے 1977ء کا انتخاب انھوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جیتا اور چند ماہ وفاقی وزیر رہے۔

1985ء کے غیر جماعتی انتخاب میں بھی وہ کامیاب ہوئے لیکن بعد میں 1980ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ تاہم 1990ء میں انھیں مسلم لیگ کی ٹکٹ پر سینیٹر منتخب کر لیا گیا۔ لاہور میں ان کا انتقال 24 جنوری 2004ء کو ہوا اور اپنے آبائی شہر ملتان میں سپرد خاک ہوئے۔

حوالہ جات

ترمیم