حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ خیبر سے قبل مشرف باسلام ہوئے۔سب سے پہلے غزوہ خیبر میں حصہ لیا پھر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں وفات پائی ۔

حجاج بن علاطؓ
معلومات شخصیت
مقام پیدائش مدینہ
مقام وفات بصرہ عراق

نام و نسب

ترمیم

حجاج نام ، ابو محمد کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے، حجاج بن علاط بن خالد بن نویرہ ابن خثر بن ہلال بن عبید بن ظفر بن سعد بن عمرو بن بہزبن امراؤ القیس بن بہثہ بن سلیم بن منصور سلمیٰ۔ [1]

اسلام

ترمیم

حجاج غزوہ خیبر سے قبل مشرف باسلام ہوئے ، اسلام کا محرک یہ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ چند ساتھیوں کے ساتھ مکہ جا رہے تھے،راستہ میں ایک بھیانک وادی میں رات ہو گئی ،اس لیے سب لوگ وہیں شب باش ہو گئے،حجاجؓ بن علاط سب کی پاسبانی کرنے لگے،اتنے میں کوئی شخص یہ تلاوت کرتا سنائی دیا: يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ [2] اے جن وانس کے گروہ!اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ اور تم بغیر سلطان کے نہ نکل سکو گے۔ مکہ پہنچے تویہ واقعہ قریش سے بیان کیا، انھوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بھی بے دین ہو گئے، یہ تو وہی کلام ہے جو محمد کے زعم میں ان کے اوپر نازل ہوتا ہے، حجاج بن علاط رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کی تصدیق اپنے ہمراہیوں سے کرائی اور مدینہ آکر مشرف باسلام ہو گئے۔ [3]

ہجرت

ترمیم

ان کی بیوی مکہ میں رہتی تھیں اور کل مال و متاع بھی وہیں تھے،اسلام لانے کے بعد کل اثاثہ مدینہ منورہ منتقل کرنے کی ضرورت ہوئی ، ورنہ مشرکین کا دستِ ظلم دراز ہو جاتا، ؛لیکن وہ لوگ مشتبہ ہو چکے تھے، آسانی سے لانا بھی ممکن نہ تھا،اس لیے انھوں نے آنحضرت سے ایک تدبیر کی اجازت مانگی،آپ نے مصلحتاً دیدی،یہ اجازت لے کر مکہ گئے قریش نے آنحضرت کے حالات دریافت کرنا شروع کیے، انھوں نے کہا محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت شکست کھائی، ان کے تمام ساتھی مارے گئے وہ خود گرفتار کرلیے گئے ہیں اور عنقریب تم لوگوں کے سامنے لاکر قتل کیے جائیں گے، قریش کے لیے اس سے بڑھ کر مژدہ کیا ہو سکتا تھا،آن کی آن میں یہ خبر تمام شہر میں پھیل گئی ،اس طرح مشرکین کو خوش کرکے کہا محمد کا سازو سامان فروخت ہو رہا ہے میں چاہتا ہوں کہ تاجروں کے پہنچنے کے قبل خریدلوں، مکہ میں لوگوں پر میرا قرض ہے، اگر تم لوگ کوشش کرو تو آسانی سے وصول ہو سکتا ہے، سب اس کار خیر کے لیے تیار ہو گئے اور کوشش کرکے کل بقایا وصول کرا دیا، اس کے بعد گھر کا کل اندوختہ لیا، حضرت عباسؓ کے کانوں تک یہ خبر پہنچی تو ان کو اس قدر صدمہ ہوا کہ خود واقعہ کی تحقیق کے لیے بھی نہ آسکے اور ایک لڑکے کی زبانی بلا بھیجا، حجاجؓ ان کے پاس گئے اوران کو تخلیہ میں لیجا کر اصل واقعہ سنایا کہ میں نے روپیہ وصول ہوجانے کے لیے یہ خبر مشہور کی تھی، میں خود مشرف باسلام ہو چکا ہوں، اگر اہل مکہ کو اس کی خبر ہو جاتی تو ایک حبہ بھی نہ دیتے، آنحضرت اللہ کے فضل سے بالکل محفوظ ہیں، خیبر کا میدان بھی مسلمانوں کے ہاتھ رہا اور آنحضرت حیی بن اخطب رئیس خیبر کی لڑکی کے ساتھ ایام عروسی بسر کر رہے ہیں؛لیکن جب تک میں ان کی زد سے نہ نکل جاؤں،اس وقت تک اس راز کو کسی پر ظاہر نہ کروؑ چنانچہ تین دن تک حضرت عباسؓ بالکل خاموش رہے، چوتھے دن جب اطمینان ہو گیا اور ان کی بیوی سے واقعہ بیان کیا پھر مسجد میں آئے، یہاں بھی وہی تذکرہ تھا، آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آنحضرت نے خیبر فتح کر لیا ،حیی بن اخطب کی لڑکی ان کی زوجیت میں آئی، بنی ابی حقیق سرداران یثرب کی گردنیں اڑادی گئیں اور حجاج رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا مال و متاع لے کر روانہ ہو گئے، لوگوں نے پوچھا تم نے کس سے سنا،فرمایا حجاج سے ،ان لوگوں نے ان کی بیوی سے تحقیق کیا تو واقعہ سچ نکلا، اس کے پانچویں دن مدینہ سے بھی خبریں آگئیں؛لیکن اب کیا ہو سکتا تھا، حجاج قابو سے نکل چکے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ [4]

غزوات

ترمیم

خیبر کے کچھ ہی دنوں پہلے مشرف باسلام ہوئے، اس لیے سب سے پہلے اسی غزوہ خیبر میں شریک ہوئے،فتح مکہ کے زمانہ میں مدینہ سے باہر تھے،آنحضرت نے حملہ کا ارادہ کیا تو ان کو بلوا بھیجا۔ [5]

تعمیر مکان و مسجد

ترمیم

حجاج رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت مند تھے اور اپنا کل اثاثہ مکہ سے لے آئے تھے؛ چنانچہ مدینہ میں اپنا ذاتی مکان بنوایا اور ایک مسجد تعمیر کرائی۔ [6]

وفات

ترمیم

وفات کے بارے میں دو روایتیں ہیں، ایک یہ کہ عہد فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابتدا میں وفات پائی اور دوسری یہ کہ جنگ جمل میں کام آئے؛لیکن پہلی روایت زیادہ مستند ہے، جنگ جمل میں یہ خود نہیں ؛بلکہ ان کے لڑکے معرض قتل ہوئے تھے۔ [7]

تمول

ترمیم

حجاج بن علاط رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام صحابہ میں مال و دولت سے لحاظ سے ممتاز تھے اور بنو سلیم کی کانیں ان ہی کی ملکیت میں تھیں۔ [8]

اولاد

ترمیم

حجاج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعدد اولادیں تھیں، ایک معرض جو جنگ جمل میں کام آئے اور دوسرے غصر،یہ اس قدر حسین تھے ؛کہ اکثر عورتیں ان پر شیفتہ ہوجاتی تھیں، اسی خطرہ سے حضرت عمرؓ نے ان کو مدینہ سے بصرہ منتقل کر دیا تھا۔ [9]

حوالہ جات

ترمیم
  1. (اسد الغابہ:308)
  2. (الرحمن:33)
  3. (استیعاب:1/132)
  4. (ابن سعد،جزو4،قسم2:14،15)
  5. (ابن سعد،جزو4،قسم2:15)
  6. (اصابہ:1/273)
  7. (اصابہ:1/327)
  8. (استیعاب:1/132)
  9. (اصابہ:6/260)