حسن رضوی
ڈاکٹر سید حسن رضوی (پیدائش: 18 اگست، 1946ء - وفات: 15 فروری، 2002ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر، صحافی، سفرنامہ نگار اور معلم تھے۔
ڈاکٹر سید حسن رضوی Dr. Hasan Rizvi | |
---|---|
پیدائش | 18 اگست 1946 ء انبالہ، برطانوی ہندوستان |
وفات | 15 فروری 2002 ء لاہور، پاکستان |
قلمی نام | سید حسن رضوی |
پیشہ | شاعر، سفرنامہ نگار، معلم، صحافی |
زبان | اردو، پنجابی |
نسل | مہاجر قوم |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے (اردو)، پی ایچ ڈی (مقالہ وہ تیرا شاعر ، وہ تیرا ناصر) |
اصناف | شاعری، سفرنامہ، صحافت |
نمایاں کام | خواب سہانے یاد آتے ہیں کبھی کتابوں میں پھول رکھنا چینیوں کے چین میں ہجر دی پہلی شام |
اہم اعزازات | صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی |
حالات زندگی
ترمیمحسن رضوی 18 اگست، 1946ء کو انبالہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے[1][2]۔ وہ ایف سی کالج لاہور میں شعبہ اردو کے صدر تھے اور روزنامہ جنگ، لاہور کے ادبی صفحے کے نگراں تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں 'ہجر دی پہلی شام'، 'کوئی آنے والا ہے'، 'اس کی آنکھیں شام'، 'کبھی کتابوں میں پھول رکھنا'، 'خواب سہانے یاد آتے ہیں'، 'جمال احمد مرسل' اور 'مدینے کی ہوا' شامل ہیں۔ ان کے سفرنامے 'دیکھا ہندوستان'، 'چینیوں کے چین میں' اور 'ہرے سمندروں کے سفر' کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے۔ انھوں نے نامور شاعر ناصر کاظمی کے فن اور شخصیت پر ڈاکٹریٹ کیا تھا۔ ان کا یہ مقالہ کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔[2]
تصانیف
ترمیمشعری مجموعے
ترمیم- ہجر دی پہلی شام
- کوئی آنے والا ہے
- اس کی آنکھیں شام
- کبھی کتابوں میں پھول رکھنا
- خواب سہانے یاد آتے ہیں
- جمال احمد مرسل
- مدینے کی ہوا
سفرنامے
ترمیم- دیکھا ہندوستان
- چینیوں کے چین میں
- ہرے سمندروں کے سفر
تحقیقی مقالہ
ترمیم- وہ تیرا شاعر، وہ تیرا ناصر : ناصر کاظمی، شخصیت اور فن
نمونۂ کلام
ترمیمغزل
وہ جو ہم کو بھلائے بیٹھے ہیں | دل انہیں سے لگائے بیٹھے ہیں | |
اک نہ اک شب لوٹ آئیں گے | لو دئیے کی بڑھائے بیٹھے ہیں | |
آج بھی ان پہ جاں چھڑکتیں ہیں | وہ جو نظریں چرائے بیٹھے ہیں | |
ان کی آنکھوں میں ڈابنے کو حسن | اپنا سب کچھ گنوائے بیٹھے ہیں |
غزل
پیار کرنے والوں کا بس یہی فسانہ ہے | اک دیا تو روشن ہے اک دیا جلانا ہے | |
ان کو بھول جائیں ہم دیکھ بھی نہ پائیں ہم | یہ بھی کیسے ممکن ہے ایسا کس نے مانا ہے | |
بارشوں کے موسم میں ہم کو یاد آتے ہیں | وہ جو اب نہیں ملتے ان کو یہ بتانا ہے | |
بس انہی پہ مرتے ہیں جن سے پیارکرتے ہیں | پیار کرنے والوں کو جانتا زمانہ ہے | |
اس طرح تو ہوتا ہے پیار کرنے والوں میں | اک کو یاد رکھنا ہے اک کو بھول جانا ہے | |
صبح کے پرندے بھی اب تو لوٹ آئے ہیں | شام سر پہ آئی ہے اور گھر بھی جانا ہے | |
شام کے اجالے میں کیوں خموش پھرتے ہو | آج سخت سردی ہے رت بھی عاشقانہ ہے | |
دوستی نبھانے کا اک یہی سلیقہ ہے | ایک بات کرنی ہے ایک کو چھپانا ہے | |
پیار کا زمانہ بھی کیا حسن زمانہ تھا | اس غزل کے مقطع میں بس یہی بتانا تھا |
غزل
کوئی موسم ہم کو راس نہیں | وہ نہیں ہے تو کچھ بھی پاس نہیں | |
ایک مدت سے دل کے پاس ہے وہ | ایک مدت سے دل اداس نہیں | |
جب سے دیکھا ہے شام آنکھوں کو | تب سے قائم مرے حواس نہیں | |
جتنا شفاف ہے ترا آنچل | اتنا اجلا مرا لباس نہیں | |
سامنے میرے ایک دریا ہے | ہونٹ سوکھے ہیں پھر بھی پیاس نہیں | |
جس کو چاہا ہے جان و دل سے حسن | جانے وہ کیوں نظر شناس نہیں |
غزل
پھر نئے خواب بُنیں پھر نئی رنگت چاہیں | زندہ رہنے کے لیے پھر کوئی صورت چاہیں | |
نئے موسم میں کریں پھر سے کوئی عہدِ وفا | عشق کرنے کے لیے اور بھی شدت چاہیں | |
اک وہ ہیں کہ نظر بھر کے نہ دیکھیں ہم کو | ایک ہم ہیں کہ فقط ان کی ہی صورت چاہیں | |
بات سننے کے لیے حوصلہ دل میں رکھیں | بات کہنے کے لیے حرف صداقت چاہیں | |
ان کو پانے کے لیے تیشہ فرہاد بنیں | قیس بننے کے لیے قیس سی وحشت چاہیں | |
سانس قربان کر دیں دیس پہ اک دن ہم بھی | ایسی تقدیر ملے ایسی سعادت چاہیں | |
ہم ملیں ایسے کہ جوں رنگ ملے پانی میں | ان کی قربت میں حسن ایسی رفاقت چاہیں |
اعزازات
ترمیمحسن رضوی کو ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے 1993ء میں صدارتی اعزا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔[2]
وفات
ترمیمڈاکٹر حسن رضوی 15 فروری، 2002ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور کے فردوسیہ قبرستان فیروزپور روڈ میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی قبر کا نمبرNA150 ہے[1][2]