حسن سدپارہ (پیدائش: 3 اپریل 1963ء)|وفات:21 نومبر 2016ء) سد پارہ گاؤں ،سکردو کے رہنے والے پاکستانی کوہ یماہ تھے جنھوں نے آٹھ ہزاری جن میں ماؤنٹ ایورسٹ سمیت کے ٹو ،گاشر برم -1، گاشر برم -2، نانگا پربت، بروڈ پیک کو سر کیا۔

حسن سدپارہ
سدپارہ پی ٹی ڈی سی اسکردو میں اپنے پوسٹر کے سامنے کھڑے ہیں۔

معلومات شخصیت
پیدائش 3 اپریل 1963
((سدپارہ سکردو]]، پاکستان
وفات 21 نومبر 2016ء (53 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مہم جو، کوہ پیما، زیادہ اونچائی پورٹر
کھیل کوہ پیمائی   ویکی ڈیٹا پر (P641) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ [1]

ابتدائی تعارف ترمیم

حسن سدپارہ کا تعلق سکردو سے کچھ فاصلے پر واقع سدپارہ گاؤں سے تھا اور انھوں نے کوہ پیمائی کا آغاز 1994ء میں کیا تھا اور 1999ء سے پیشہ وارانہ کوہ پیمائی شروع کی تھی۔ 2007ء تک انھوں نے پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں آکسیجن کی مدد کے بغیر سر کر لی تھیں۔

اعزاز ترمیم

کوہ پیمائی میں اعلٰی کارکردگی پر حکومتِ پاکستان نے حسن سدپارہ کو سنہ 2008ء میں تمغۂ حسن ِ کارکردگی سے بھی نوازا تھا۔ حسن سدپارہ نے سنہ 2007ء تک پاکستان میں واقع آٹھ ہزار میٹر سے بلند پانچ چوٹیاں آکسیجن کی مدد کے بغیر سر کر لی تھیں۔

براڈ پیک تک رسائی ترمیم

حسن سدپارہ نے سنہ 1999ء میں قاتل پہاڑ کے نام سے پہچانے جانے والے نانگا پربت، سنہ 2004ء میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو، سنہ 2006ء میں گیشا برم ون اور گیشا برم ٹو جبکہ 2007ء میں 'براڈ پیک' کو سر کیا۔ براڈ پیک سر کرنے کے بعد، حسن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'اگر مجھے تعاون حاصل ہو تو میں فخر سے اپنا جھنڈا ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی تک لے کر جاؤں' اور چار سال بعد حسن سدپارہ کا یہ خواب اس وقت پورا ہوا جب مئی 2011ء میں حسن نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی پر پہنچ کر یہ پہاڑ سر کرنے والے دوسرے پاکستانی بنے۔

وفات ترمیم

21 نومبر 2016ء کو حسن سدپارہ نے 53 برس کی عمر میں راولپنڈی میں وفات پائی وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ اور اس نازک وقت میں راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں ان کا علاج جاری تھا۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  • * * * * * * *
  1. http://www.dawn.com/news/1297725