ابوسلیمان داؤد طائی
امام ابو سلیمان داؤد ابن طائی تبع تبعین میں سے تھے۔ آپ امام ابو حنیفہ کے شاگرد اور ابراہیم بن ادہم کے ہمعصر اور طریقت میں حبیب عجمی کے مرید تھے۔ معروف کرخی فرماتے ہیں میں نے کسی شخص کو نیہں دیکھا کہ اس کی نگاہوں میں دنیا اس قدر حقیر ہو جتنی کہ داؤد طایئ کی نظر میں۔[2]
ابوسلیمان داؤد طائی | |
---|---|
(عربی میں: داود الطائي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 710ء کی دہائی کوفہ |
وفات | سنہ 781ء (70–71 سال) کوفہ |
مذہب | اسلام [1] |
عملی زندگی | |
استاذ | ابو حنیفہ |
پیشہ | عالم ، صوفی |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمآ پ کا پورا نام ابو سلیمان داود بن نصیر طائی ہے۔ آپ مشائخ کبار اور اہل تصوف کے سرداروں میں تھے۔ آپ کی ولادت با سعادت 21 صفر 90 ہجری کو شام میں ہوئی
تعلیم و تربیت
ترمیمآپ کا شمار امام ابو حنیفہ کے قابل شاگردوں میں ہوتا تھا۔ جب کبھی امام محمد اور امام ابو یوسف میں کسی مسلے پر اختلاف پیدا ہوجاتا تو آپ ہی ثالث قرار پاتے تھے۔ ضروری علوم حاصل کرنے کے بعد امام اعمش اور ابن ابی لیلیٰ سے حدیث پڑھی، پھر امام اعظم کی خدمت میں باریاب ہوئے، بیس برس تک ان سے استفادہ کرتے رہے اور ان کے کبار اصحاب وشرکاء تدوین فقہ میں سے یہ بھی ایک ہیں۔ بعض اوقات صاحبین کے اختلاف کو اپنی رائے صائب سے فیصلہ کر کے ختم کر دیتے تھے، امام ابو یوسف سے بوجہ قبول قضا اپنی غایت زہد واستغنا ء کے باعث کچھ منقبض رہتے تھے اور فر ماتے تھے کہ ہمارے استاذ امام اعظم نے تا زیانے کھا کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کرالیا مگر قضا کو قبول نہ کیا اس لیے ہمیں بھی ان کا اتباع کرنا چاہیے سفیان ابن عینیہ آپ کے حدیث میں شاگرد ہیں، امام یحییٰ بن معین وغیرہ نے آپ کی توثیق کی اور نسائی میں آپ سے روایت کی گئی ہے۔
زہد و قناعت
ترمیممحدث محارب بن دثار فر ماتے تھے کہ اگر داؤد طائی پہلی امتوں میں ہوتے تو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ان کا ذکر فر ماتے، محدث ابن حبان نے لکھا ہے کہ داؤد فقہا میں سے تھے اور مام ابو حنیفہ کی مجلس میں حاضر رہا کرتے تھے، پھر رات دن عبادت میں صرف کر نے لگے تھے۔آپ کو ورثہ میں بیس اشرفیاں ملیں تھیں جن سے بیس سال گذر کی اور وفات پائی، کبھی کسی بھائی، دوست یا بادشاہ کا عطیہ قبول نہیں کیا،
وصال
ترمیمآپ 19 ذیقعدہ 162ھھ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق آپ 8ربیع الاول 165ھ کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار بغداد میں ہے۔[3] امام محمد کا بیان ہے کہ میں ان کی خدمت میں گھر حاضر ہو کر کسی مسئلہ میں رجوع کرتا تھا تو اگر ان کے دل میں انشراح ہو اکہ اس مسئلہ کہ مجھے اپنے دین کے اصلاح کے لیے ضرورت ہے تو جواب دیتے ورنہ تبسم فرما کر مجھے ٹال دیتے تھے کہ ہمیں کام ہے ہمیں کام ہے[4] یہ امام اعظم ابوحنیفہ کے جلیل القدر شاگرد اور مشہور تارک الدنیا عبادت گزار بزرگ ہیں جس رات میں ان کی وفات ہوئی بہت سے مشائخ نے اس رات میں یہ خواب دیکھا کہ جنت میں خوب زینت کی جا رہی ہے اور ہرطرف نور ہی نور پھیلا ہوا ہے۔ تو مشائخ نے خواب ہی میں پوچھا کہ یہ کون سی رات ہے تو آواز آئی کہ اس رات میں داؤد طائی کی وفات ہو گئی ہے۔ ہر طرف فرشتوں کا ہجوم، یہ آرائش اور چہل پہل ان کی روح کی آمد آمد کے لیے ہے۔[5] عبد اللہ بن مبارک فر ماتے تھے کہ بس دنیا سے اتنا ہی سروکار رکھنا چاہیے جتنا داؤد طائی نے رکھاجنکے بارے میں منقول ہے کہ آپ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے، جتنا وقت لقمے بنانے میں صرف ہوتا ہے، اتنی دیر میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہوں۔[6]
سلسلہ شیوخ
ترمیمحضرت شیخ ابوسلیمان داؤدطائی
- حضرت خواجہ ابو نصر حبیب عجمی
- حضرت خواجہ حسن بصری
- حضرت سیدناعلی بن ابی طالب رضی الله عنه
- خاتم النبین حضرت محمد صلی الله علیه وسلم