حطین، طبریا
حطین، طبریا (عربی: حطين ) فلسطین کا ایک گاؤں جو طبریا ذیلی ضلع، انتداب فلسطین میں واقع ہے۔ [1]
حطّين Hattin, Hutin | |
---|---|
Hittin, 1934 | |
اشتقاقیات: from personal name | |
متناسقات: 32°48′25″N 35°27′12″E / 32.80694°N 35.45333°E | |
192/245 | |
جغرافیائی-سیاسی وجودیات | انتداب فلسطین |
ضلع | طبریا ذیلی ضلع، انتداب فلسطین |
Date of depopulation | 16–17 July 1948 |
رقبہ | |
• کل | 22,764 دونم (22.764 کلومیٹر2 یا 8.789 میل مربع) |
آبادی (1945) | |
• کل | 1,190 |
Cause(s) of depopulation | Fear of being caught up in the fighting |
Secondary cause | Military assault by یشیؤ forces |
Current Localities | Arbel, Kefar Zetim |
تفصیلات
ترمیمحطین، طبریا کی مجموعی آبادی 1,190 افراد پر مشتمل ہے۔
تاریخ
ترمیم6ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج مسیحی علاقوں پر چھا گئیں۔
یروشلم کی فتح
ترمیمحطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 88 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین زنگی کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین زنگی کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔
صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کیے جو اس شہر پر قبضے کے وقت مسیحی افواج نے کیے تھے۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر مسیحی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔
بیت المقدس پر فتح کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہو گئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
معاصر تاریخ
ترمیمبیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا ۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
|
|