جہاں آرا بیگم

مغل شہنشاہ شہاب الدین شاہ جہاں اول اور ممتاز محل کی بڑی بیٹی جو پادشاہ بیگم کے لقب سے مشہور تھیں۔

شہزادی جہاں آرا بیگم صاحبہ(مغل شہزادی، پیدائش :2 اپریل، 1614ء ،وفات :16 ستمبر 1681ء) مغل سلطان شاہ جہاں اور ممتاز محل کی دختر [1] اور اورنگ زیب کی بڑی بہن تھیں۔

جہاں آرا بیگم
 

معلومات شخصیت
پیدائش 2 اپریل 1614ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 ستمبر 1681ء (67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد شہاب الدین شاہ جہاں اول   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ممتاز محل   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
خاندان تیموری خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان فارسی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل شاعری   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زندگی ترمیم

ممتاز محل کی وفات 1631ء میں ہوئی، اس وقت جہاں آرا کی عمر 17 سال کی تھی، تب مغلیہ سلطنت کی شہزادی کہلانے لگیں۔[2] اپنے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کے ساتھ اپنے شفیق والدِ محترم کی بھی دیکھ بھال اپنے سر لے لی جب ان کی ماں کا انتقال ہوا، تو ان پر بہت ساری ذمہ داریاں تھیں، ان میں ایک یہ کہ اپنے بھائی دارا شکوہ کا “نادرہ بانو“ سے نکاح، جو ممتاز محل کی خواہش اور ارادہ تھا۔ ممتاز محل کا اپنے 14ویں بچے کی ولادت کے وقت انتقال ہوا تھا مانا جاتا ہے کہ ممتاز محل کے نجی زروزیور کی قیمت اس دور کے 1 کروڑ روپئے تھے، جنہیں شاہجہاں نے دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جہاں آرا کو اور دوسرا حصہ بقیہ بچوں میں تقسیم کیا۔[3] شاہ جہاں اکثر اپنی بیٹی جہاں آرا سے رائے مشورے لیتے تھے اور سرکاری انتظامیہ کے امور میں اکثر جہاں آرا کا دخل بھی ہوا کرتا تھا۔ اپنی عزیز بیٹی کو شاہ جہاں “صاحبات الزمانی“، “پادشاہ بیگم“، “بیگم صاحب“ جیسے القاب سے پکارا کرتے تھے۔ جہاں آرا کو اتنا اختیار بھی تھا کہ وہ اکثر قصر آگرہ سے باہر بھی جایا کرتی تھیں۔[4] سنہ 1644ء میں،[5] جہاں آرا کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر، ایک حادثہ ہوا جس میں جہاں آرا کے کپڑوں کو آگ لگ گئی اور وہ جھلس کر زخمی ہو گئیں۔ شاہ جہاں اس بات سے نہایت رنجیدہ ہوا اور انتظامی امور دوسروں کو سونپ کر اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ اور اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی زیارت پر گیا۔ جب جہاں آرا ٹھیک ہوئیں، شاہ جہاں انھیں قیمتی ہیرے جواہرات اور زیورات تحفے میں دیے اور سورت بندرگاہ سے آنے والی آمدنیات کو بھی تحفے میں پیش کیا۔[4] جہاں آرا نے بعد میں اجمیر شریف کی زیارت بھی کی، جو ان کے پردادا شہنشاہ اکبر کا طور تھا۔[6]

خاندان سے تعلقات ترمیم

 
شاہ زادی جہاں آرا کے کنارے سے گذرتا ہوا شاہجہاں - ایک تصویر۔

کئی انکشافات بھی اس بات کے ہیں کہ جہاں آرا اپنے بھائی اورنگ زیب کو “سفید سانپ“ (ہو سکتا ہے اورنگ زیب کے چہرے کی رنگت کی وجہ سے ہو) کہہ کر پکارا کرتی تھیں، کبھی کبھی، شیر اور چیتا کے نام سے بھی بلایا کرتی تھیں۔[7] اپنی بہن “روشن آرا“ سے بھی اس کی کچھ ان بن ہوا کرتی تھی۔ وجہ یہ کہ جہاں آرا کی مقبولیت سے روشن آرا حسد کرتی تھیں۔[8] سلطنت کی گدہ نشینی کے لیے جہاں آرا کا میلان “دارا شکوہ“ کی طرف تھا، تو روشن آرا اورنگ زیب کو سلطان دیکھنا چاہتی تھیں۔ جب اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کا جانشین ہوا تو شاہ جہاں کو قید کیا گیا، جہاں آرا اپنے والد کے ساتھ قید میں رہا کرتی تھیں اور والد کی بیمار پرسی کیا کرتی تھیں اور شاہ جہاں کی وفات تک جہاں آرا اپنے والد کی خدمت کرتی رہیں۔[9] شاہ جہاں کی وفات کے بعد اورنگزیب اور جہاں آرا کے درمیان رہی کشیدگی کم ہوئی، اورنگزیب نے جہاں آرا کو صاحب شہزادی کا لقب دیا۔ جہاں آرا روشن آرا کو شہزادی بناکر خود خاموش رہ گئیں۔[10] جہاں آرا کو اتنے اختیارات حاصل تھے کہ وہ اورنگزیب کی پالیسیوں اور اقدامات پر کھلی نکتہ چینی کرتیں اور خوفزدہ ہوئے بغیر اورنگزیب کے انتظامی طریقوں پر تنقید کرنا بھی اس کا معمول تھا

تدفین ترمیم

 
جہاں آرا کا مقبرہ (دائیں جانب)، حضرت نظام الدین اولیا کا مقبرہ (بائیں جانب)، پیچھے کی جانب جماعت خانہ مسجد۔ دہلی کے نظام الدین کامپلیکس کی تصویر۔

جہاں آرا کی وفات پر، اورنگ زیب نے انھیں “صاحباۃالزمانی“ لقب دیا۔[11] جہاں آرا کی تدفین حضرت خواجہ نظام الدین کی درگاہ کے قریب ہوئی۔ ان کے مزار پر ذیل کا کتبہ لکھا ہوا ہے جو ان کی سادہ زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔

انفرادی زندگی ترمیم

ان کی نجی زندگی کے بارے میں تفصیلات بہت دستیاب ہیں۔[12] یہ کافی تعلیم یافتہ تھیں، عربی فارسی زبانوں میں کافی عبور تھا،[12] وہ ایک اچھی مصور نگار، مصنف اور شاعرہ بھی تھیں۔[13] جہاں آرا کی خدا ترسی، غربا کے تئیں خلوص و رحیمیت کافی مقبول تھی۔ مساجد کی تعمیر میں بھی کافی عقل مند ثابث ہوئیں۔[14] جہاں آرا کافی علوم میں ماہرہ تھیں، انھوں نے خود ایک کشتی بنوائی جس کا نام “صاحبی“ تھا۔ جب اُس کشتی کے سفر کی بات آئی تو انھوں نے مکہ مکرمہ کا سفر 29 اکتوبر 1643ء کو طے کیا۔ اور یہ بھی حکم صادر کیا کہ 50 کونی (ایک کونی 4 من کے برابر) چاول مکہ شریف روانہ کیا جائے اور اس چاول کو غرباء اور ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جائے۔"[15] شہر آگرہ میں ان کی پہچان اس بات سے بنی کہ انہی کی کاوشوں سے آگرہ کی جامع مسجد کی تعمیر 1648ء میں ہوئی، جو آج کل پرانے آگرہ شہر میں ہے۔[16] انھوں نے شاہجہان آباد شہر کی بھی تعمیر کروائی اور کی توسیع، عماراتی کام انجام دلوائے۔ جو آگے چل کر 1650ی میں مکمل ہوئے۔ چاندنی چوک اور مرکزی بازار کی بھی انھوں نے ہی تعمیر کروائی۔

صوفی ترمیم

جہاں آرا، بھائی دارا شکوہ دونوں بھائی بہن ملا بدخشی کے مرید تھے، جنھوں نے دونوں کو صوری طریقہ قادریہ سے 1641ء میں آراستہ کروایا۔ ملا شاہ بدخشی جہاں آرا سے اتنا متاثر تھے کہ اپنے بعد اس سلسلے کی ذمہ داری جہاں آرا کو سونپنی چاہی مگر صوفی طریقہ اجازت نہ دینے کی وجہ سے چپ رہ گئے۔[6] جہاں آرا نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی سوانح لکھی جس کا نام “مونث الارواح“ تھا، اسی طرح اپنے پیر و مرشد ملا شاہ کی بھی سوانح لکھی جس کا نام “رسالہِ صاحِبیہ“ تھا۔[17] جہاں آرا کی تصنیف معین الدین چشتی کی سوانح اس دور کا ایک بڑا ادبی کارنامہ مانا جاتا ہے، حضرت کے انتقال کے چار سو سال بعد اُن کی سوانح لکھنا ایک کمال تھا۔ جہاں آرا اجمیر شریف کی زیارت کے موقع پر خود کو “فقیرہ“ کہا کرتی تھیں اور خود کو ایک صوفی خاتون منوانے کو مناسب خیال کرتی تھیں ۔[18] جہاں آرا یہ کہا کرتی تھیں کہ وہ خود اور اپنے بھائی دارا شکوہ دونوں ہی تیموری خاندان کے وہ افراد ہیں جنھوں نے صوفی طریقہ اپنایا ہے۔[19] اوررنگ زیب بھی صوفی طریقے کے پابند تھے۔ جہاں آرا نے صوفی طریقوں کے پاسبان کی طرح کام کیا اور بالخصوص صوفی ادب کی ترتیبات میں کافی کام کیا۔ کلاسیکی ادب کے ترجمات کے ساتھ ساتھ صوفی ادب کے ترجمات بھی کروائے۔[20]

ابلاغ میں ترمیم

  • جہاں آرا (1964ی) نام کی ایک ہندی فلم 1964 میں بنی، جس میں جہاں آرا کا کردار “مالا سنہا“ نے ادا کیا تھا۔

حوالہ جات - ثقافتی ورثے میں ترمیم

حواشی ترمیم

  1. Begum, Jahan Ara (1613-1683)
  2. Preston, page 176.
  3. Preston, page 175.
  4. ^ ا ب Preston, page 235.
  5. The Biographical Dictionary of Delhi – Jahanara Begum, b. Ajmer, 1614-1681 – The Delhi Walla
  6. ^ ا ب Annemarie Schimmel (1997)۔ My Soul Is a Woman: The Feminine in Islam۔ New York: Continuum۔ صفحہ: 50۔ ISBN 0-8264-1014-6 
  7. Review: A princess with taste[مردہ ربط]
  8. Preston, page 266.
  9. "Delhi Information: Tomb of Begum Jahanara"۔ 10 جنوری 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2014 
  10. Preston, page 285.
  11. Preston, page 286.
  12. ^ ا ب Preston, page 232.
  13. Kathryn Lasky (2002)۔ The Royal Diaries: Jahanara, Princess Of Princesses۔ Scholastic Inc.۔ صفحہ: 147۔ ISBN 0-439-22350-4۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2012 
  14. "WISE: Muslim Women: Past and Present - Jahanara"۔ 22 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2014 
  15. Shireen Moosvi (2008)۔ People, Taxation, and Trade in Mughal India۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 264۔ ISBN 0-19-569315-9۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 فروری 2012 
  16. Agra: The Taj City - Jami Masjid Agra
  17. Saiyid Athar Abbas Rizvi (1983)۔ A History of Sufism in India۔ 2۔ New Delhi: Mushiram Manoharlal۔ صفحہ: 481۔ ISBN 81-215-0038-9 
  18. Camille Adams Helminski (2003)۔ Women of Sufism: A Hidden Treasure۔ Boston: Shambhala۔ صفحہ: 129۔ ISBN 1-57062-967-6 
  19. Bikrama Jit Hasrat (1982)۔ Dārā Shikūh: Life and Works (second ایڈیشن)۔ New Delhi: Munshiram Manoharlal۔ صفحہ: 64 
  20. Annemarie Schimmel (1997)۔ My Soul Is a Woman: The Feminine in Islam۔ New York: Continuum۔ صفحہ: 51۔ ISBN 0-8264-1014-6 

ادب ترمیم