خسرو شاہ غزنوی
معزالدولہ خسرو شاہ غزنوی ابن بہرام شاہ غزنوی (وفات: 1160ء) سلطنت غزنویہ کا سترھواں حکمران سلطان تھا جس نے 1152ء سے 1160ء تک حکومت کی۔
خسرو شاہ غزنوی | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت غزنویہ | |||||||
برسر عہدہ 1152 – 1160 |
|||||||
| |||||||
سلطان سلطنت غزنویہ | |||||||
برسر عہدہ 1157 – 1160 |
|||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
وفات | سنہ 1160ء لاہور ، سلطنت غزنویہ |
||||||
اولاد | خسرو ملک غزنوی | ||||||
والد | بہرام شاہ غزنوی | ||||||
خاندان | سلطنت غزنویہ | ||||||
درستی - ترمیم |
عہد حکومت
ترمیمخسرو شاہ اپنے والد بہرام شاہ کی وفات کے بعد 547ھ مطابق 1152ء میں غزنی میں تخت نشین ہوا۔ خسرو شاہ نے جب حکومت ہاتھ میں لی تو اُس زمانے میں علاؤ الدین جہاں سوز کے حملے کا غلغلہ ایسا مچا کہ اِس پرآشوب دور میں خسرو شاہ نے غزنی میں مزید قیام کرنا مناسب نہ سمجھا اور ہندوستان کی راہ لی۔ ہندوستان میں داخل ہوتا ہوا لاہور پہنچا اور لاہور کو اپنا مستقر بنالیا اور یہاں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ قیام کیا۔
علاؤ الدین جہاں سوز کو جب معلوم ہوا کہ خسرو شاہ نے غزنی کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقر بنالیا ہے اور غزنی خالی رہ گیا ہے تو اُس نے غزنی اور اہل غزنی سے اپنے بھائی سیف الدین سوری کے خون کا بدلہ لینے کے لیے لشکرکشی کی۔ سیف الدین سوری کو سلطان بہرام شاہ غزنوی نے ایک معرکہ میں قتل کر دیا تھا۔ علاؤ الدین جہاں سوز کی لشکرکشی کا مقصد یہی تھا۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے غزنی پر حملہ کر دیا اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ غزنی اور اہالیانِ غزنی پر جو جی چاہیں، تباہی مچائیں۔ سپاہیوں کو حکم کا ملنا تھا کہ انھوں نے لوٹ مار کے ساتھ خوب تباہی مچائی۔ شہر غزنی کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اہل شہر کا قتل عام ہوا۔ سات روز تک غوری افواج اِسی شغلِ قتل و غارت گری میں مصروف رہی۔ اِسی دوران میں کسی نے علاؤ الدین جہاں سوز سے کہا کہ جب سیف الدین سوری کو گائے پر بٹھا کر منہ سیاہ کرکے شہر گھمایا گیا تھا تو غزنی کی خواتین دَف اور باجے بجاتی ہوئیں اُس جلوس میں شریک تھیں اور انھوں نے سیف الدین سوری کا خوب مذاق اُڑایا اور توہین کی تھی۔ یہ سن کر علاؤ الدین جہاں سوز نے حکم دیا کہ غزنی کی خواتین کو بھی قتل کر دیا جائے۔ غوری سپاہیوں نے اِس بے کس و مجبور صنف کو بھی بری طرح قتل کیا اور ہزاروں مردوں سمیت غزنی کی آبادی تہ تیغ کردی گئی۔ غزنی کی تباہی کے بعد علاؤ الدین جہاں سوز غور کی جانب بڑھا۔ راستے میں جہاں جہاں اولادِ سبکتگین کی کوئی عمارت یا یادگار نظر آئی، اُسے فوراً مسمار کروا دیا۔ علاؤ الدین جہاں سوز نے سیف الدین سوری کے وزیر سید امجد الدین کے قتل کا اِنتقام یوں لیا کہ غزنی شہر کے سیدوں کے ایک بہت بڑے گروہ کو زیر حراست لے کر اُن کی گردنوں میں مٹی سے بھرے بورے ڈلوائے اور اِسی عالم میں انھیں فیروزکوہ میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔ اِن بے گناہوں کے خون سے بوروں کی مٹی گوندھ کر فیروزکوہ کے برج تعمیر کروائے۔ علاؤ الدین جہاں سوز کے اِن مظالم کی وجہ سے لوگ اُسے جہاں سوز کہنے لگے تھے اور یہ لقب اُس کے نام کا جزو بن گیا۔[1]
خسرو شاہ کی کوششیں
ترمیمعلاؤ الدین جہاں سوز کی غزنی و غور سے واپسی کے بعد خسرو شاہ نے اپنے آبائی ملک کو اپنے قبضہ میں کرنے کا اِرادہ کیا اور سلطان احمد سنجر سے مدد ملنے کی توقع پر وہ لاہور سے غزنی کی طرف روانہ ہو گیا۔ بدقسمتی سے اُسی زمانے میں ترکوں نے سلطان احمد سنجر کو گرفتار کرکے غزنی پر حملہ کر دیا تھا، اِسی لیے خسرو شاہ اپنی خواہش پوری کیے بغیر ہی واپس لاہور آگیا۔علاؤ الدین جہاں سوز نے وقتی مصلحت کے تحت خسرو شاہ کو صلح کی شرائط پیش کی تھیں مگر خسرو شاہ نے اُن شرائط سے اِنکار کر دیا، بدقسمتی یہ ہوئی کہ سلطان احمد سنجر پر ترک غالب آگئے اور علاؤ الدین جہاں سوز کے خوف سے خسرو شاہ کو دوبارہ لاہور واپس آنا پڑا۔ اِس واقعے کے بعد علاؤ الدین جہاں سوز نے غزنی پر قبضہ برقرار رکھا اور خود غور میں مقیم رہا۔[2]
وفات
ترمیمخسرو شاہ نے 555ھ مطابق 1160ء میں لاہور میں وفات پائی۔ اُس نے سات سال حکومت کی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ابو القاسم فرشتہ: تاریخ فرشتہ، صفحہ 130۔
- ↑ ابو القاسم فرشتہ: تاریخ فرشتہ، صفحہ 131۔
خسرو شاہ غزنوی
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | سلطان سلطنت غزنویہ 1152ء— 1160ء |
مابعد |