خضر راہ

علامہ اقبال کی ایک نظم کا نام

خضر راہ اقبال کی ایک نظم ہے جسے انھوں نے انجمن حمایت اسلام کے 37 ویں سالانہ اجلاس میں جو 12 اپریل 1922ء کو اسلامیہ ہائی اسکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہوا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی۔ بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ عالم اسلام کے لیے وہ وقت بہت نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔ اتحادیوں کے ایماءپر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتار دی تھیں۔ شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑا غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔ خود ہندوستان میں تحریک ہجرت جاری ہوئی۔ پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل آ گئے۔ اقبال نے انہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی۔ اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ ابتداءمیں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔ پہلے دو بندوں کا عنوان تھا ”شاعر“ یعنی شاعر کا خضر سے خطاب باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر “ نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دیے۔

فکری جائزہ ترمیم

اقبال کی یہ نظم اپنے دور میں بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کے بارے میں پروفیسر اسلوب احمد انصاری لکھتے ہیں:

”اس نظم کی ہر دلعزیزی کا بڑا سبب اس کے موضوع یا موضوعات کا ہنگامی اہمیت کا حامل ہونا تھا۔“

اس نظم کو فکری لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ ”شاعر“ کے عنوان سے پس منظر، خضر کی آمد اور شاعر کے سوالات پر مبنی ہے جب کہ دوسرا حصہ خضر کے جواب پر مشتمل ہے۔ نظم کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ شاعر انتہائی پریشانی اور ذہنی کشمکش کی حالت میں سکون کی تلاش میں ساحل دریا کی جانب رخ کرتا ہے۔ شاعر کو ایک نئی صبح کی تلاش ہے۔ جہاں زندگی با معنی ہو جہاں اس کا وطن عزیز فرنگی جال سے آزاد ہو۔ جہاں عالم اسلام یورپی رخنہ گردوں کے فتنہ و فساد سے محفوظ ہو۔ یہاں پہنچ کر اقبال دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے ایک شاعر اقبال اور دوسرا مفکر اقبال، شاعر اقبال سوال کرتا ہے اور مفکر اقبال جواب دیتا ہے۔ پہلے بند میں منظر کشی کا بہترین نمونہ ملتا ہے۔ جو ایک خاص کردار خضر کے ظہور کے لیے ہے۔ یہاں ایک سکوت کی فضاء ملتی ہے وہ دراصل اس انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس کو توڑنے کے لیے ہی شاعر کا دل ایک جہان ِ اضطراب بنا ہوا ہے۔

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شے ر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب!

منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظر پر اُبھرتی اور جزو ِ منظر بن جاتی ہے۔ خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم و دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے، دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!

دوسرے بند کے پہلے دو شعروں میں قبال ”خضر“ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کے تمام سربستہ راز آپ پر منکشف ہیں اور آپ کو مستقبل کے وہ حالات بھی معلوم ہیں جو مستقبل میں ظہور پزیر ہوں گے۔ اقبال خضر کو موسیٰ کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں کہ موسی کا علم بھی آپ کے سامنے ہیچ ہے اسی لیے وہ اُن کے سامنے چند سوالات رکھتے ہیں اور سوال اُسی سے پوچھے جاتے ہیں جو صاحب ِ علم و صاحب اسرار ہو۔ سوالات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

پہلا سوال: خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟
دوسرا سوال: زندگی کا راز کیا ہے؟
تیسرا سوال: سلطنت کیا چیز ہے؟
چوتھا سوال: سرمایہ اور محنت میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟
پانچواں سوال: دنیائے اسلام کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے؟

اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی اور آفاقی تھا۔ وہ سماجی انصاف کی علم برداری کرنا اپنا فرض تصور کرتے تھے۔ اسی طرح کمزوروں، مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی ملت دوستی کو "ایشیا کا خرقہ دیرینہ" سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ نظر سے پورے مشرق کو اس لیے شامل کرتے ہیں کہ اس کے خرقہ دیرینہ کو بہت ہی جابرانہ اور ظالمانہ انداز میں چاک کرکے اس کی قیمت پر مغربی اقوام نو دولت ”نوجواں“ پیرا پو ش ہو رہے ہیں۔

یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے۔ وہ دنیائے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔ بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے۔ اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔ اُس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے۔ حکمران طبقہ ابھی تک دادِ عیش دے رہا ہے۔

گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائو نوش

دوسری طرف مسلمان، مسلمان کا دشمن ہو گیا ہے اور ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو“۔ کے سنہرے اصول کو چھوڑ کر ذاتی غرض کی خاطر ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے۔ یہاں اقبا ل نے شریف مکہ کے حوالے سے عربوں کی ترکی سے غداری کو حضور کے دین کو بیچنے کے مترادف قرار دیا ہے،

بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

اور ایک طرف طاغوتی قوتیں ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔ یہ قوتیں مسلمانوں کی قوت برداشت کا امتحان لے رہی ہیں۔

آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

تیسرے بند میں خضر پہلے سوال کا جواب دیتے ہیں۔ اقبال فطرتاً صحرائیت پسند او ر بدویت پسند ہے۔ اقبال کے نزدیک جو افراد او ر قومیں مسلسل جدوجہد کرتی ہیں وہ دوام پاتی ہیں جہاں و ہ تھک کر بیٹھ جاتی ہیں موت اُن کو دبوچ لیتی ہے۔ اور صحرا نوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے۔ جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ حرکت و تغیر کا تماشا جا رہی ہے اور اس تماشے کے کسی منظر کو قیام نہیں ہے۔ خضر اپنی مسلسل دوڑ دھوپ اور حرکت و عمل کو اصل زندگی بتاتا ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صحرا سے اقبال کو اتنی انسیت کیوں ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا روحانی مرکز اور اصل مولد و منشا صحرائے عرب ہے۔ اسی بدولت سادہ زندگی کی وجہ سے مسلمان تما م دنیا پر چھا گئے۔ اُن میں فاتحانہ اخلاق پیداہوئے صحرائیت میں تکلف و تصنع کا کوئی گذر نہیں۔ صحرا نشین آدمی میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ ایک متمدن انسان جوش اور ولولے سے عاری ہوتا ہے۔ صحرا نشین کی ضروریات زندگی بھی حد درجہ محدود ہوتی ہیں۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مردِ کہستانی

اگلے دو بندوں میں زندگی کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ بقول اسلوب احمد انصاری: ”زندگی اقبال کے نزدیک مترادف ہے ایک ایسے مظہر کے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو ادراک کی گرفت میں آسانی سے نہیں لایا جا سکتا۔“

اقبال انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی سود و زیاں، نفع نقصان کی سوچ سے بلند تر چیز ہے۔ اس میں کبھی تواعلیٰ مقصد کے لیے جان قربان کردی جاتی ہے جس طرح حضرت امام حسین نے کربلا میں اور حضرت اسماعیل نے خدا کے حکم پر اپنی جان ِ عزیز کو قربانی کے لیے پیش کیا اور کبھی اعلیٰ مقاصد کی خاطر ہجرت کرکے جان بچائی جاتی ہے۔

برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی!

انسان کو چاہیے کہ وہ آج اور کل، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کے حسا ب سے زندگی کو نہ ناپے کیونکہ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی، انسان ایک ارتقاءپذیر اکائی ہے۔ اس میں تجدید خودی کی قوت پوشیدہ ہے۔ اسی لیے اس کا نقش مٹ مٹ کر اُبھرتا رہتا ہے۔ زندگی ہر لحظہ نئی قبا زیب تن کر لیتی ہے اور اسی تحریک میں سر آدم پنہاں ہے۔ سرِ آدم قوت تسخیر اور تعمیر کائنات ہے۔ انسان کوچاہیے کہ اپنی خدادا د صلاحیتوں سے بھر پور کام لے۔ کیونکہ اسی لیے تو انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ گو انسان کی تخلیق ایک مشتِ خاک کی سی ہے۔ لیکن قوت کے بدولت انسان اشرف المخلوقات ہے۔

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی!

زندگی اور آزادی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ انسان میں بے شک قوت کے خزانے موجود ہیں۔ مگر اس کے اظہار کے لیے آزادی اولین شرط ہے۔ کیونکہ غلامی انسان کی قوت عمل کو شل کر دیتی ہے اور نمو کے سارے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ غلامی کے دور میں زندگی گھٹتے گھٹتے ایک ایسی ندی بن جاتی ہے۔ جس میں پانی کم ہوتا ہے اور معمولی بند باندھنے سے رک جاتی ہے۔ لیکن آزادی کے زمانے میں زندگی ایک ایسے سمندر کا روپ دھار لیتی ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی !

آگے چل کر اقبال انسان کے ذوق ِ عمل اور جدوجہد کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں اُن کے خیال میں انسان کو سچائی اور صداقت کا دلدادہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے پہلے اپنے جسم میں جان پیدا کرنا ضروری ہے۔ یعنی اپنے دل میں ولولہ اور عزم و جوش پیدا کرنا چاہیے۔ جو مرتبے اور عہدے، مال و دولت انسان کو وراثت میں ملے ہیں۔ ان پر انحصار کرنا چھوڑ دے۔ اپنی ہمت، اپنی محنت اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے دولت کمائے اور جاہ و مرتبہ حاصل کرے۔ اسی سے اُن کے دلوں میں وہ حوصلہ اور جرات پیدا ہوگی جو خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے جری اور دلیر لوگوں میں تھی۔

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

چھٹا بند سلطنت سے متعلق ہے اقبال فرماتا ہے کہ

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ 'ان الملوک'
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

سلطنت و حکومت کو طاقت کی جادوگری کہنا ایک نہایت بلیغ بات ہے۔ جادوگری کا لفظ ایک طرف طاقتور حکمرانوں کی ننگی جارحیت اور طاقت کے استعمال پر محیط تو دوسری طرف مدبرانہ مصلحتوں اور رعایا پروری کے ظاہری سلوک کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ جب کوئی محکوم نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو حکمران اُسے انوکھے ہتھکنڈوں سے پھر سلا دیتا ہے۔ اُسے ایسے سہانے سپنے دکھاتا ہے کہ وہ پھر سے غلامی کا طوق گلے میں پہن لیتا ہے۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کوحکمراں کی ساحری

پھر اقبال مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل کرنے کے لیے زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مسلمان تو آزاد پیدا ہوا ہے۔ تیری مثال تو شاہین جیسی ہے تو اپنی آزاد فطرت کو غلامی کی دلدل میں پھنسا کر بدنام نہ کر اگر ایسا کرے گا تو برہمن سے بھی بڑا کافر ہوگا۔

اقبال کہتا ہے کہ جمہوریت ظالم وجود کا جن ہے جو خوبصورت لباس پہن کر ناچ رہا ہے لوگ اس کے زرق برق لباس کو دیکھ کر اس کو آزادی کی نیلم پری سمجھ لیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ وہی مطلق العنان ملوکیت ہے۔

اقبال مسلمانوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ اے ناداں انسان تو اس رنگ و بوکے دھوکے کو باغ سمجھ رہا ہے۔ اور اپنی نادانی سے اس پنجرے کو گھونسلا سمجھ رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ تجھ کو تادیر غلام رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں،

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

ساتواں اور آٹھواں بند سرمایہ داری سے متعلق ہے۔ اقبال خضر راہ کی زبانی مزدور کو پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنات کے دل سے اٹھنے والی آواز ہے۔ یہ میرا ذاتی پیغام نہیں بلکہ قدرت اور فطرت کا ازلی پیغام ہے۔ میری آواز میں زمانے کی آواز شامل ہے۔

بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات

ان سرمایہ داروں نے تجھ کو غلام رکھنے کے لیے مختلف حربے ایجاد کیے ہیں۔ تجھے کبھی ذات پات کے چکروں میں الجھایا گیا، کبھی قومیت کا سوال کھڑا کیا ہے۔ کبھی کلیسا کا چکر چلایا ہے۔ کبھی تہذیب کا جال بچھا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ کبھی کالے گورے کی تمیز رکھی گئی۔ اور اے مزدور تو ان حیلہ بازوں سے بے خبر رہا اور یہ تجھے طرح طرح کے خواب دکھا کر فریبوں میں الجھا کر تیرا خون چوستے رہے اور افسوس تو انہی کے لیے لڑتا رہا اور ان کے لیے محنت کر تا رہا۔ یہاں اقبال مزدورں کو بیدار کرتا ہے۔

اُٹھ کہ اَب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

آخری تین بند دنیائے اسلام سے متعلق ہیں، یہاں اقبال نے اپنے جذبات کی تسکین کے لیے راہ نکالی ہے جو اُن کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں نہ جانے کتنی مدت سے پوشیدہ تھے۔ مسلمانوں کے تمام اشعار او ر میراث کو مسیحی دنیا نے اپنا لیا مثلاً روایت پرستی کی جگہ تخلیقی انداز کو مسیحی دنیا نے اپنایا۔ اندھی تقلید کی جگہ اجتہاد سے کام لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سرفراز اور کامران ہو گئے اور مسلمان پستی کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ عربوں نے غداری کرکے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ جب تک ایک تھے مضبوط تھے جدا ہوئے تو دشمن نے ان کو ایک ایک کرکے ہڑپ کر لیا۔

اور وہ ترک جو کبھی جاہ و حشمت کے مالک تھے۔ جو بادشاہ تھے آج وہ پوری دنیا میں رسوا ہو گئے ہیں۔ خلافت کا تاج ان کے سر سے اتر چکا ہے جس میں کچھ مغرب کی عیاری اور سیاسی چالبازی کا کمال ہے تو بہت زیادہ مسلمانوں کا ترکِ مذہب اور اسلامی شعار سے دور ی کا نتیجہ ہے۔ ایران بھی یورپ کی طرف دیکھ رہا ہے اورمغربی تہذیب بالکل کھوکھلی ہے۔ جو آئندہ نسلوں کے لیے تباہی کا پیغام لائے گی۔ اس لیے اقبال ایرانیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ان اثرات سے پرہیز کریں اس کے بعد اقبال خودی کا درس دیتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو دوسروں کے سامنے نہ لے جا۔ اپنی خودی کو قربان نہ کر اور دوسروں کے آگے ہاتھ مت پھیلا۔ اگر تو دوسروں کی محتاجی کرے گا تو اس سے تیری خودی کو ٹھیس لگے گی۔ خودی جو آئینے کی مانند نازک ہے ایسی ٹھیس سے چکنا چور ہو جاتی ہے۔

اقبال مشرق کے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تمھارے مصائب و آلام کا حل ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق میں مضمر ہے۔ اگر مسلمان چاہتا ہے کہ ذلت کے گھور اندھیروں سے نکل آئے تو انھیں آپس میں باہمی ربط و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ مگر افسوس ایشیا والے اس نکتے سے اب تک بے خبر ہیں۔ لہٰذا جب بھی اُن پر یہ راز منکشف ہوگا تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر

اس کے بعد اقبال اپنے کلام میں کہتا ہے کہ میری باتوں کو غور سے سن تجھے اس میں آنے والے وقت کی دھندلی سی تصویر نظر آئے گی۔ یعنی میری باتوں میں تجھے مستقبل میں ظہور پزیر ہونے والی بہت سی باتوں کا پتہ چل سکتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ آسمان کے پاس ایک سے ایک آزمایا ہوا فتنہ موجود ہے۔ اس لیے ان سے ہوشیار رہ۔

فنی جائزہ ترمیم

”خضر راہ“ فنی لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے۔ اس بارے میں آل احمد سرور لکھتے ہیں:

”خضر راہ“ میں اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے یہ وہ بلندی ہے جس میں مستی اندیشہ ہائے افلاکی کے ساتھ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا حیرت انگیز عزم موجود ہے۔“

خضر راہ کل گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ترکیب و ہیئت میں ہے۔ اس میں 85 اشعار ہیں اس نظم میں کم و بیش 1400 الفاظ ہیں۔ یہ بحر رمل مثمن مقصور میں ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

نظم کے کردار ترمیم

اس نظم میں دو کردار سامنے آتے ہیں ایک خود شاعر اور دوسرا خضر، شاعر ایک بے قرار شخص ہے اُس نے اپنے آپ کو ”جویائے اسرارِ ازل“ کہا ہے۔ جو ایک ایسے انسان کو ظاہر کرتا ہے جس کے دل میں سب کچھ جاننے کی خواہش موجزن ہے۔ دوسرا کردار خضر کا ہے۔ خضر کی شخصیت کو اقبال نے اس شعر میں مکمل کر دیا ہے۔

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک ِ جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند ِ سحر رنگ شباب

پہلے مصرعے میں اُن کو ”پیکِ جہاں پیما“ کہا گیا اس لیے کہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں دوسرے مصرعے میں ” پیری میں مانند سحر رنگ ِ شباب“ کا بیان ملتا ہے۔ اس لیے ان کی طویل عمر کی روایت خاصی مشہور ہے اور جس طرح صبح، صدیوں سے ایک ہی طرح ہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا مظہر ہے۔ جیسے شباب کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح خضر راہ بھی صدیوں پر محیط طویل عمر کے باوجود جوانوں کی طرح مستعدی سے جہاں گردی کرتے رہتے ہیں،بقول فتح محمد ملک،

”اقبال نے خضر کا کردار مشرقی روایات اور داستاں کی بجائے براہ راست قرآن سے اخذ کیا۔“

ڈرامائی کیفیت ترمیم

اس نظم میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ ڈرامائیت خضر کے کردار کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہے۔ اس نظم کے پہلے منظر کو اگر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ڈرامے کا پہلا سین شروع ہو گیا ہے۔ یہ سین ساحل دریا کا ہے۔ شاعر مضطرب دل کے ساتھ محو نظارہ ہے۔ اس کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ مگر بیرونی ماحول انتہائی پر سکون ہے۔ رات کا سکون پر پھیلائے ہوئے ہے۔ قاری تجسّس کا شکار ہو کر پورے انہماک سے مطالعہ شروع کرتا ہے۔ پر سکون ماحول کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔ اس لیے قاری بھی کسی طوفان کا منتظر ہے۔ اسی اثنا ءمیں اچانک خضر سٹیج پر آکر مکالمہ شروع کرتا ہے۔

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل
چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیر ِ عالم بے حجاب

پھر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح کائنات اور بین الاقوامی سیاسیات سے متعلق شاعر کو مکمل اور کافی و شافی جواب مل جاتا ہے۔

نظم کا لہجہ ترمیم

پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے بقول:

”بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم و ملائم اور دھیما ہے۔“

پہلے بند میں لہجہ انتہائی دھیما اور محتاط ہے۔ اسی طرح پوری نظم میں مجموعی طور پر دھیما پن اور نرمی غالب ہے۔ کہیں کہیں لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔ مگر اقبال اسے دوبارہ مدہم کر دیتا ہے۔ مثلاً دوسرے بند میں شاعر انتہائی جوش سے کہتا ہے۔

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش

یہاں جوش اور گرمی کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ ”صحرا نوردی میں“ لہجہ دھیما ہے۔ ”زندگی“ میں پھر بلند اور قدرے پر جوش ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی شاعر کے نزدیک ”گردش پیہم“ اور پیہم دواں پر دم جواں“ ہے۔ جس میں انسان کو مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مگر اگلے ہی بند میں

سوئے گردوں نالہ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے

کہہ کر پر جوش ”Tone“ کو مدہم کر دیا ہے۔ یہ اتار چڑھائو اور مدوجزر پوری نظم کا خلاصہ ہے مگر مجموعی تاثر دھیما ہے۔ اختتام ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہوتی ہے۔

رنگ تغزل ترمیم

تغزل اقبال کے کلام کا خاصا ہے۔”خضر راہ“ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق اور ٹھوس مسائل کو موضوع سخن بنا یا گیا ہے۔ مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شعریت اور تغزل رچا بسا ہے اس لیے غزلوں کے علاوہ ان کے بیشتر نظموں میں تغزل کا رنگ نمایاں ہے۔ خضر راہ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگ تغزل نظر آتا ہے۔

برتر اندیشہ سود وزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِ جاں ہے زندگی
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ِ ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری

تراکیب و تشبہات ترمیم

اقبال نے خضر راہ میں بھی نادر تراکیب کااستعمال کیا ہے مثلاًقلزم ہستی، شہید جستجو، ضمیر کن فکاں، شمشیر بے زنہار، ساز دلبری، شاخ آہو وغیرہ

تشبیہ کسی چیز کو کسی خاص وصف کی بناءپر کسی دوسری چیز کی مانند ظاہر کیا جائے اقبال کے ہاں نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ بقول عابد علی عابد

”اقبال ایسی ایسی خوبصورت تشبیہہں اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ ان دیکھی چیزیں دیکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔“

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب

صنائع بدائع کا استعمال ترمیم

اقبال کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہکار ہے۔

صنعتِ تلمیح:

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش

صنعتِ تجنیس:

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو

صنعت ملمع:

ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق تیرا چشمے عطا کر دستِ غافل درنگر

صنعتِ مراعات النظیر:

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

صنعت تضاد:

دیکھتا ہوں کہ وہ پیک ِ جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند ِ سحر رنگ شباب

محاکات:

اس نظم میں محاکات یعنی تصویر کشی کا بہترین نمونے ملتے ہیں۔ بقول غلام رسول مہر کہ،

”خضر راہ کا موضوع منظر کشی نہ تھا۔ تاہم جہاں کہیں اتفاقیہ موقع مل گیا ہے وہاں اس کمال کرشمہ فرمائیاں بھی دیدنی ہیں۔“

مثلاً پہلا بند جس میں اقبال لفظی تصویر کشی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں،

شب سکوت فزا ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب!

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

مجموعی جائزہ ترمیم

نظم کی عظمت کے بارے میں عبادت بریلوی کی رائے ہی کافی ہے: ” خضر راہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں موضوع کی بصیرت، فنی سلیقہ شعاری سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور اسی صورت حال نے اس کو اس سحر سے آشنا کر دیا ہے جو شاعری کی جان اور شعر کا ایمان ہے۔“(تحقیق و تحریر:کلیم الٰہی امجد)