روایتی طور پر خواتین کا کام (انگریزی: Women's work) صرف گھر تک محدود سمجھا گیا ہے۔ اس میں پکوان، بچوں کی پرورش، شوہر کا خیال اور گھر کی صاف صفائی اور دیکھ ریکھ مقدم سمجھے گئے ہیں۔ تاہم جدید دور میں یہ پہچان بدل گئی ہے اور خواتین کی ایک معتد بہ تعداد گھر کے باہر کام کرنے پر آمادہ ہے۔ اس کے کئی وجوہ ہیں۔ جس میں اولًا معاشی پہلو ہے کہ گھر ایک تنخواہ سے چلنے میں دشواری، عورتوں کی معاشی طور پر خود مختار ہونے کی خواہش، نیز کچھ معاملوں میں سسرالی اعزاء سے دن کے کم از کم کچھ وقت تک دوری بنائے رکھنے کی کوشش بھی شامل ہے۔ تاہم گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین مرد کے شانہ بشانہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ انھیں گھر اور دفتر دونوں کا کام کرنا پڑتا ہے۔ دونوں جگہ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ کیسا بھی کام کر لیں، لوگ کسی بھی غلطی یا غلطی نہ ہو تب بھی، انھیں طعنہ دے ہی دیتے ہیں۔ نوکری کرنے والی خواتین کی پہلی مخالفت تو ان کے اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سے خاندانوں میں عورت کا نوکری کرنا بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے خاندانوں میں سے کسی عورت کا اپنے گھر والوں کو اپنی نوکری کے لیے منانا ہی بہت بڑی بات ہے۔ تاہم اس کے باوجود خواتین آگے بڑھنے میں کثیر تعداد میں کام کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔[1]

مشکلات ترمیم

  • 155 ملکوں میں سے تقریبا 90% ملکوں میں کوئی نا کوئی ایسا قانون موجود ہے جو خواتین کی معاشی ترقی میں رکاوٹ بنتا ہے۔
  • 118 ملکوں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی ہے یا انھیں کام کرنے کے لیے مردوں کی اجازت درکار ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کی ملازمت اختیار کریں۔
  • ٪31 ملکوں میں خواتین کو پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیے اپنے شوہروں سے اجازت لینی پڑتی ہے اور بہت سی شادی شدہ خواتین اپنے بچوں کی شہریت حاصل نہیں کر سکتیں۔
  • تقریبًا 28٪ ممالک میں مردوں کو گھر کا سربراہ مانا جاتا ہے اور عورتوں پر فرض ہے کہ وہ ان کا حکم مانیں۔[2]
  • دفتر میں بات بات پر فوری کاموں کی تکمیل طلب کرنے والا آجر، روزانہ کاموں کی طویل فہرست اور منفی ماحول جیسی چند ایسی وجوہات ہیں، جن سے خواتین دفتر میں تناؤ میں رہتی ہیں۔ ایسے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی کار کردگی متاثر ہوجاتی ہے اور وہ کچھ بھی نہیں کر پاتی ہیں یا شدید ذہنی تناؤ کی شکار بنتی ہیں۔[3]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم