خواجہ محمد اسلم

پاکستانی ایتھلیٹ

خواجہ محمد اسلم (8 فروری 1922ء تا 23 جولائی 2019ء) پاکستان کے اتھیلیٹ تھے جنھوں نے ایشیائی کھیلوں 1954ء میں 200 میٹر کی دوڑ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ انھوں نے محض 22 سیکینڈ میں دوڑ مکمل کر کے چاندی کا تمغا اپنے نام کیا تھا۔[1] اس دوڑ میں سونے کا تمغا جیتنے والا بھی ایک پاکستانی ہی تھا جن کا نام محمد شریف تھا۔ شریف نے 21.9 سیکینڈ میں دوڑ مکمل کی تھی۔[2] اسلم نے گرمائی اولمپکس 1952ء میں بھی 200 میٹر اور 4 × 100 دوڑ میں حصہ لیا تھا۔ وہ برطانیہ گیمز، 1954ء میں 4 × 100 دوڑ میں عبد العزیز، عبد الخالق اور محمد شریف بٹ کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے تھے۔

خواجہ محمد اسلم
شخصی معلومات
تاریخ پیدائش 8 فروری 1922ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 23 جولا‎ئی 2019ء (97 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
شرکت ایشیائی کھیل 1954ء
1952ء گرمائی اولمپکس
دولت مشترکہ کھیل، 1954ء   ویکی ڈیٹا پر (P1344) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ اسپرنٹر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھیل ایتھلیٹکس   ویکی ڈیٹا پر (P641) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

اسلم کی وفات 23 جولائی 2019ء کو 97 سال کی عمر میں لاہور میں ہوئی۔ وہ اولمپیئن خواجہ جنید کے والد بھی تھے۔[3] مرحوم تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور عالمی شہرت یافتہ شخصیت تھے۔ انھوں نے مختلف کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ وہ ایک ورلڈ کلاس ہاکی کھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ ایتھلیٹکس اور کرکٹ کے کھلاڑی بھی رہے۔ انھوں نے نیشنل گیمز 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ایتھلیٹکس میں گولڈ میڈل وصول کیا تھا۔

لاہور میں اپنی قیام گاہ کو انھوں نے خواجہ اسلم میوزیم کا نام دے رکھا تھا۔ کمرے میں چاروں طرف اتنی تصاویر آویزاں تھیں کہ گویا دیواروں کو تصویروں سے رنگ دیا گیا ہو۔ اولمپیئن خواجہ محمد اسلم سینٹر ہاف کی پوزیشن پر ہاکی کھیلتے تھے۔ چند مواقع پر لیفٹ ہاف کی پوزیشن پر بھی کھیلے ۔ ہیلسنکی میں منعقدہ اولمپکس 1952ء میں قومی ہاکی ٹیم کا حصہ بنے۔ ان اولمپکس میں انھیں یہ منفرد مقام بھی حاصل ہوا کہ انھوں نے ہاکی اور اتھلیٹکس دو کھیلوں میں حصہ لیا۔ وہ 1968ء میں میکسیکو اولمپکس اور 1978ء میں ارجنٹائن میں ورلڈ ہاکی کپ جیتنے والی ٹیموں کے سلیکٹر تھے۔ وہ بحیثیت سلیکٹر کھلاڑیوں کے میرٹ پر انتخاب کے لیے ہرکسی سے نبردآزما ہو جاتے تھے۔ وہ قومی سطح پر ہاکی، کرکٹ، فٹ بال اور اتھیلٹکس سے وابستہ رہے۔ جس پر محترمہ فاطمہ جناح نے انھیں بیسٹ آل رائونڈر کی ٹرافی بھی دی۔ عبدالحفیظ کاردار کے زمانے میں کرکٹ نرسری کے چیئرمین رہے جبکہ قومی سطح پر ہاکی، اتھیلٹکس اور سوئمنگ کے سلیکٹر بھی تھے۔ خواجہ محمداسلم پاکستان ریلوے کے شعبہ کھیل سے چالیس سال منسلک رہے اور 1984ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔

خواجہ محمد اسلم کے لواحقین میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔

لازوال شخصیت کے مالک خواجہ محمد اسلم مرحوم نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی اور پاکستان ہاکی کو لیجنڈ اولمپیئن خواجہ جنید، خواجہ اویس انٹرنیشنل اور خواجہ بلال انٹرنیشنل کی صورت میں اپنا شاندار نعم البدل دیا۔ مرحوم کی بیٹیاں بھی انٹرنیشنل کھلاڑی رہیں۔

اولاد

ترمیم

خواجہ محمد اسلم کے لواحقین میں 3 بیٹے اور 3 بیٹیاں شامل ہیں۔

لازوال شخصیت کے مالک خواجہ محمد اسلم مرحوم نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی اور پاکستان ہاکی کو لیجنڈ اولمپیئن خواجہ جنید سمیت خواجہ اویس انٹرنیشنل اور خواجہ بلال انٹرنیشنل کی صورت میں اپنا شاندار نعم البدل دیا۔ مرحوم کی بیٹیاں بھی انٹرنیشنل کھلاڑی رہیں۔ ان کے بڑے صاحبزادے خواجہ جنید ہاکی کے اولمپیئن اورکوچ ہوئے جبکہ چین کی قومی ٹیم کی بھی کوچنگ کی خواجہ اویس اور خواجہ بلال جڑواں بھائی 1982کے جونیئر ورلڈ کپ کے لیے پاکستان جونیئر ہاکی ٹیم کا حصہ بنے۔ صاحبزادیوں نے بھی کھیلوں کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ مرحومہ انجم خواجہ اتھیلٹکس کی قومی کھلاڑی، ڈاکٹر تبسم خواجہ قومی وومن ہاکی ٹیم کی منیجر اور کوچ اور شبنم خواجہ قومی وومن ہاکی ٹیم کا بطور کھلاڑی حصہ رہیں۔ خواجہ اویس ایران اور میانمار کی قومی ہاکی ٹیم کے کوچ رہے، خواجہ محمد اسلم اور خواجہ اویس دونوں باپ بیٹا ایران میں ہاکی کی کوچنگ کرچکے ہیں ۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Arild Gjerde، Jeroen Heijmans، Bill Mallon، Hilary Evans (2011)۔ "Muhammad Aslam Biography and Olympic Results"۔ Olympics۔ Sports Reference.com۔ 18 اپریل 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 فروری 2012 
  2. "Asian Games"۔ www.gbrathletics.com 
  3. "Khawaja Muhammad Aslam passes away at 97"۔ DAWN.COM۔ جولائی 24, 2019