عبد الحفیظ کاردار
عبد الحفیظ کاردار انگریزی:Abdul Hafeez Kardar (پیدائش: 17 جنوری 1925ء لاہور، پنجاب) | (وفات: 21 اپریل 1996ء اسلام آباد، پنجاب) ایک بین الاقوامی کرکٹ کھلاڑی تھے جو بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے تین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ دیگر دو کھلاڑی امیر الہی اور گل محمدہیں۔وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان تھے اور پاکستان میں کرکٹ کے حوالے سے ان کی خدمات کی بہت اہمیت ہے۔[2][3] عبد الحفیظ کاردار کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اولین کپتان اور معمار قرار پائے۔ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کاردار کا دلی لگاؤ تھا۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی کرکٹ کی بنیاد رکھی اور اسے انتہائی قلیل مدت میں پروان چڑھایا اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا[4] عبد الحفیظ کاردار کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں انگلینڈ کے دورے پر ہندوستانی ٹیم کی قیادت کی۔ اس کے علاوہ انھیں آکسفورڈ بلیو اور واروِک شائر کا نمایاں کھلاڑی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔عبد الحفیظ کاردار نے واروِک شائر میں دو سیزن گزارے۔
فائل:Abdul Hafeez Kardar.jpg | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | عبد الحفیظ کاردار | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرف | عبد الحفیظ کے طور پر کھیلے (تک 1947) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | بائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | بائیں ہاتھ کا سلو گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | پاکستانی کپتان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | ذو الفقار احمد (بردار نسبتی), فاروق کاردار (عم زاد), سیرل الیگزینڈر فریڈرک ہیسٹیلو (خسر), شاہد کاردار (بیٹا) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 29/7) | 22 جون 1946 بھارت بمقابلہ انگلستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 26 مارچ 1958 پاکستان بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1953–1954 | پاکستان مشترکہ سروسز کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1948–1950 | واروکشائر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1947–1949 | جامعہ آکسفورڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1944 | مسلم کرکٹ ٹیم | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1943–1945 | شمالی بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرکٹ آرکائیو، 3 دسمبر 2008 |
ابتدائی دور
ترمیمعبد الحفیظ کاردار کانام زبان پر آتے ہی ایک پروقار شخصیت کا احساس ابھر کر سامنے آتا ہے عبد الحفیظ کاردار کو اللہ تعالیٰ نے مردانہ حسن سے نوازا تھا۔ وہ ایک دراز قد، خوش شکل اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان میں بلا کی قائدانہ صلاحیت موجود تھی۔ قائد اعظم کی طرح وہ نظم و ضبط کو اولیت دیتے تھے چنانچہ اس وقت کی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں مثالی نظم و ضبط قائم تھا۔ کاردار بہترین قائد ہونے کے علاوہ بذات خود بھی بڑے زبردست آل راؤنڈر تھے۔ وہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے نہایت کامیاب بلے باز تھے۔ انھیں بائیں ہاتھ سے اسپن اور سلو میڈیم باؤلنگ کرنے پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ٹیم کے مشکل مرحلوں میں وہ ہمیشہ ڈھال بن جاتے تھے۔ مشکل وقت میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ان کا جوہر خاص تھا۔انھیں بابائے پاکستان کرکٹ کہا جاتا ہے جو حرف بہ حرف بالکل بجا ہے[5]وہ لاہور کے مشہور محلے اندرون بھاٹی گیٹ میں 17جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے۔ان کے والد جلال الدین کاردار پنجاب میں کواپریٹو تحریک کے بانیوں میں شمار کیے جاتے ہیں بنیادی طور پر آپ کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہے انھوں نے میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی اسکول سے پاس کیا ۔ انٹردیال سنگھ کالج اور بی اے کاامتحان اسلامیہ کالج سے پاس کیا‘ کرکٹ کا شوق تو بچپن ہی سے تھا۔ ابتدا ہی سے آپ کو خواجہ سعیداحمد جیسے عظیم کرکٹ کھلاڑی کی سرپرستی حاصل ہوئی جو اس سے پہلے نذر محمد ‘گل محمد ‘امتیاز احمد جیسے نامور کرکٹ کھلاڑی قومی سطح پر متعارف کرواچکے تھے۔عبد الحفیظ کاردار بائیں ہاتھ سے میڈیم پیس باولنگ اور جارحانہ بیٹنگ کرتے تھے۔ رانجی ٹرافی میں ناردرن انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے حصہ لیااور کامیاب کھلاڑیوں میں شمار کیے گئے۔ پنجاب یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کی قیادت کے بعد آپ 1946ء میں نواب آف پٹودی کی کپتانی میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں منتخب کرلیے گئے جو انگلستان کے دورے پر جارہی تھی ‘اس دورے میں آپ کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں کیا گیا۔بعد ازاں مزید حصول تعلیم کے لیے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہاں فلسفہ ‘ معاشیات اور سیاسیات ان کے مطالعہ میں شامل تھے[6]
کرکٹ سے تعارف
ترمیمعبد الحفیظ کارداد کی شہرت اگرچہ کرکٹ کے حوالے سے ہے مگر انھوں نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ رگبی، فٹ بال، کراس کنٹری اور کشتی رانی میں بھی حصہ لیا اور ہر کھیل میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ ان کو ایک مکمل سپورٹس مین قرار دی جا سکتا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ دو سال تک انگلستان میں ہی وارکشائر کائونٹی کی جانب سے کرکٹ کھیلتے رہے۔قیام پاکستان کے چند سال بعد آپ وطن پاکستان لوٹ آئے اور ایک آئل کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔ اس زمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین جسٹس کارنیلیس تھے، ان کی طرف سے آپ کو پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی پیش کش ہوئی کیونکہ نومبر دسمبر 1951ء سے ایم سی سی کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آرہی تھی،آپ نے پیشکش قبول کرتے ہوئے ایم سی سی کے خلاف پہلا میچ لاہور میں کھیلا جو ہارجیت کا فیصلہ ہوئے بغیر ختم ہو گیا جبکہ کراچی ٹیسٹ میں کاردار کی قیادت میں ایم سی سی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔برصغیر پاک و ہند میں یہ ایم سی سی ٹیم کی پہلی شکست تھی۔اس سے پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ ملنے پر غور ہوا اور بعد ازاں ایشیا میں بھارت کے بعد پاکستان کی ٹیم ٹیسٹ سٹیس کا درجہ رکھنے والی دوسری ٹیم بن گِئی[7]
ٹیسٹ کیرئیر
ترمیمعبد الحفیظ کاردار نے اپنا پہلا ٹیسٹ بھارت کی جانب سے 1946ء کے دورۂ انگلستان میں کھیلا تھا اور اس سیریز کے بعد آپ ہندوستان واپس آنے کی بجائے آکسفرڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان ہی میں ٹھہر گئے اور اس دوران اپنی کرکٹ کو بھی جاری رکھا۔اس دوران واروکشائر کاؤنٹی نے آپ سے معاہدہ کر لیا تقسیم ہند کے بعد آپ نے بھارت کی بجائے پاکستان کو اپنا وطن منتخب کیا۔ آپ 1952ء میں بیرون ملک کا پہلا دورہ کرنے والے پاکستانی دستے کے قائد تھے۔ دوسری جانب ان کے مدمقابل بھارت کے مشہور و معروف کرکٹ کھلاڑی لالہ امر ناتھ کے زیر قیادت کھیلنے والی ٹیم تھی۔ اگرچہ دہلی اور بمبئی کے ٹیسٹ میچوں میں بھارتی ٹیم کو فتح حاصل ہوئی جہاں لکھنؤ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں فضل محمود کی شاندار گیند بازی کی بدولت پاکستان نے تاریخی کامیابی سمیٹی۔عبد الحفیظ کاردار کے کیریئرکی دوسری یادگار جیت 1954ء میں دورۂ انگلستان میں اوول ٹیسٹ کی فتح تھی۔[8] ۔1952ء میں حفیظ کاردار کی قیادت میں ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کادورہ کیا اس دورے میں کاردار نے 416 رنز بنائے اور 13وکٹیں حاصل کیں۔1954ء میں انگلستان کے دورے کے دوران اوول میں آپ ہی کی قیادت میں انگلستان کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا پھر یکے بعد دیگرے انڈین کرکٹ ٹیم، نیوزی لینڈاور آسٹریلیا کی ٹیموں کے خلاف کھیلتے ہوئے نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ ان کی اپنی آل رائونڈ کارکردگی بھی سب سے نمایاں رہی۔1957-58ء میں ویسٹ انڈیز کے مقابلے میں پاکستان کو شکست ہوئی لیکن کاردار کے 253 رنز یادگار حیثیت اختیار کر گئے۔اس سیریز میں کاردار اور وزیر محمد کی چھٹی وکٹ کی شراکت 168رنز رہی۔یہ ریکارڈ 2000ء میں ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف کھیلتے ہوئے انضمام الحق اور عبد الرزاق نے توڑا اس دورے میں انھیں انگلی پر شدید چوٹ آئی لیکن ڈاکٹروں کی ہدایت کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کی عزت و وقار کو مدنظر رکھ کر انھوں نے 37 اوورز کیے اور 57 رنز بنائے۔۔1958ء تک حفیظ کاردار نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ایک مضبوط ٹیم کے طور پر مستحکم بنیادوں پر استوار کیا اس طرح پہلے 23 ٹیسٹوں میں آپ نے قومی ٹیم کی کامیاب قیادت کی کاردار ہی کی زیر قیادت پاکستان نے 1955ء میں نیوزی لینڈ کو اپنے میدانوں میں سیریز میں شکست دی اور پھر 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹیسٹ میں کامیابی سمیٹی۔ ان کا آخری دورہ ویسٹ انڈیز کا تھا جو 1958ء میں کیا گیا اور آپ کے آخری ٹیسٹ میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز جیسے سخت حریف کو ایک باری اور ایک رن کے فرق سے شکست دی۔ 26 ٹیسٹ مقابلوں پر محیط اپنے دور میں عبد الحفیظ کارداد نے 23 مقابلوں میں پاکستان اور 3 مقابلوں میں بھارت کی نمائندگی کی۔ان کی قیادت کے دور میں پاکستان نے 23 ٹیسٹ میچوں میں6 میچ جیتے، 6 ہارے اور 6 میچ برابر رہے۔
The Skipper
ترمیمعبد الحفیظ کاردار نے دست آہن کے ساتھ پاکستانی ٹیم کی قیادت کی۔ اپنی ٹیم پر ان کا رعب اور دبدبہ مثالی تھا۔ The Skipper کا ٹائٹل ان کے نام ساتھ خوب سجتا تھا۔ گویا یہ ان کے نام کا ہی ایک حصہ تھا۔ یعنی عبد الحفیظ کاردار دی اسکپر۔ کاردار صاحب کے بعد اگر کسی اور پاکستانی کرکٹ کپتان کو اس اعزاز کا حقدار قرار دیا جا سکتا ہے تو وہ صرف عمران خان ہیں جو اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ پاکستان کے ان دونوں مایہ ناز کرکٹ کھلاڑیوں کے درمیان اور بھی کئی قدریں مشترک ہیں۔ بلاشبہ دونوں ہی بہترین آل راؤنڈرز اور مثالی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ دونوں ہی کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ کرکٹ کے علاوہ ان دونوں نے سیاست کے میدان میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر خوب دکھائے۔
اعداد و شمار
ترمیمعبد الحفیظ کاردار نے 26 ٹیسٹ میچوں کی 42 اننگز میں 3 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 927 رنز بنائے جس میں 93 ان کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 23.76 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 5 نصف سنچریاں شامل تھیں جبکہ 174 فرسٹ کلاس میچوں کی 262 اننگز میں 33 بار ناٹ آئوٹ رہ کر انھوں نے 6832 رنز بنائے۔ 173 ان کا بہترین سکور تھا۔ 29.83 کی اوسط سے بنائے گئے ان رنزوں میں 8 سنچریاں اور 32 نصف سنچریاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے ٹیسٹ میں 16 اور فرسٹ کلاس میں 110 کیچز بھی پکڑے عبد الحفیظ کارداد نے ٹیسٹ کرکٹ میں 954 رنز دے کر 21 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ 35 رنز کے عوض 3 وکٹیں ان کا کسی ایک اننگ میں بہترین ریکارڈ تھا جبکہ 73 رنز کے عوض 5 وکٹوں کا حصول ان کے کسی میچ میں بہترین کارکردگی تھی ان کو 45.42 کی اوسط حاصل ہوئی جبکہ فرسٹ کلاس میچوں میں 8448 رنز دے کر 344 وکٹ 24.55 کی اوسط سے حاصل کیے ان میں 25/7 ان کی کسی ایک اننگ کی بہترین کارکردگی تھی ان میں 19 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا 5 سے زائد وکٹ اور 4 دفعہ کسی ایک اننگ میں 10 وکٹ بھی شامل تھے۔
کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد
ترمیمعبد الحفیظ کاردار نے سیاست میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پنجاب صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے اور صوبائی کابینہ میں وزیر خوراک، کواپریٹو, تعلیم ,پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ اور محکمہ صنعت رہے۔[9] آپ اس عہدے پر 1972ء سے 1977ء تک کام کرتے رہے۔ان کاایک اور کارنامہ امپریل کرکٹ کانفرنس کانام تبدیل کرکے انٹر نیشنل کرکٹ کانفرنس رکھنے کی تجویز دینا تھا۔ آئی سی سی کی میٹنگ کے دوران پہلے سری لنکا کو ٹیسٹ پھر بنگلہ دیش کو ایسوسی ایٹ ممبر کا درجہ دلایا۔ وہ 1972ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ ہوئے اور یہاں تک کہ اس کے سربراہ بھی بن گئے۔ البتہ 1977ء میں آپ کو بے جا حکومتی مداخلت اور کھلاڑیوں کے احتجاج کے باعث مستعفی ہونا پڑا۔وہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کی حثیت سے اپنے انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ایشیائی اور افریقی ممالک کی کرکٹ ٹیموں کو زیادہ سے زیادہ نمائندگی دلانے کے لیے بہترین کاوشیں کیں۔ کرکٹ اور سیاست دونوں کو خیرباد کہنے کے بعد انھیں سفارت کاری کے میدان میں بھی ایک اعلیٰ مقام ملا جس کے نتیجے میں وہ سوئٹزر لینڈمیں پاکستان کے سفیر بنا دیے گئے۔ علمی اور سماجی بھلائی کے کاموں میں بھی کاردار صاحب کو بڑی گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ ان دونوں شعبوں میں بھی انھوں نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔
گوگل کا خراج تحسین
ترمیم2019ء میں عبد الحفیظ کاردار کی 94ویں سالگرہ پر انھیں گوگل ڈوڈل کے طور پر دکھایا گیا تھا
ایوارڈز اور اعزازات
ترمیمعبد الحفیظ کاردار کو 1958ء میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور 2012ء میں، انھیں پاکستان کی کرکٹ میں خدمات کے اعتراف میں بعد از مرگ ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
عبد الحفیظ کاردار کی کتابیں
ترمیمعبد الحفیظ کاردار ایک علمی شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے جنھوں نے کرکٹ اور سیاسی موضوعات پر درجن کے لگ بھگ کتابیں تحریر کیں جو درج ذیل ہیں
- افتتاحی ٹیسٹ میچز (1954)
- ٹرائل پر ٹیسٹ کی حیثیت (1954)
- سبز سائے (1958)
- عوام کا عزم (1971)
- کرکٹ کی سازش (1977)
- کیا ہمارے نوجوانوں کا معاشی مستقبل بن گیا ہے؟ (1985)
- بنگلہ دیش: سیاسی ناکامی کی قیمت (1985)
- آل راؤنڈر کی یادیں (1987)
- پاکستان کے سولجرز آف فارچیون (1988)
- ایک سفیر کی ڈائری (1994)
- ناکام توقعات (1995)
ذاتی زندگی
ترمیمعبد الحفیظ کاردار نے وارِکشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب کے چیئرمین سیرل الیگزینڈر فریڈرک ہیسٹیلو (پیدائش:31 مئی 1895ء برمنگھم، واروکشائر|وفات:ستمبر 1975ء موزلے برمنگھم بعمر 80 سال 121 دن) کی صاحبزادی ہیلن روزمیری ہیسٹیلو سے پہلی شادی کی۔ بعد ازاں انھوں نے ایک پاکستانی خاتون سے دوسری شادی کی جو پاکستانی ٹیست کرکٹ کھلاڑی ذوالفقار احمد کی بہن تھیں۔ ان کے بیٹے شاہد حفیظ کاردار نے سول سروس میں اپنے جوہر آزمائے وہ پہلے وزیر خزانہ پنجاب اور بعد میں 16 ویں گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے لیکن اپنے والد کی طرح اصولی موقف رکھتے ہوئے دونوں عہدوں سے مستعفی ہوئے۔شاید ہی کوئی شخص ہوگا جو اتنے بڑے عہدوں کو ذاتی اختلاف کا بہانہ بنا کر مستعفی ہوجائے یہ صفت انھیں اپنے عظیم والد سے ملی
وفات
ترمیمپاکستان کرکٹ کو ترقی اور کامرانی کی منازل دینے والے عبد الحفیظ کاردار 21 اپریل 1996ء کو لاہور میں 71 سال اور 95 دن کی عمر میں اس عارضی دنیا سے رخصت ہو گئے اور میانی صاحب قبرستان (بہاول پور روڈ ) لاہور میں آسودہ خاک ہوئے ۔
مزید دیکھیے
ترمیم- کرکٹ
- ٹیسٹ کرکٹ
- پاکستان قومی کرکٹ ٹیم
- بھارت قومی کرکٹ ٹیم
- بھارت کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑیوں کی فہرست
- پاکستان کے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی
- دو ممالک کی طرف سے کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کی فہرست
ماقبل کوئی نہیں
|
پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان 1952–1958 |
مابعد |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Kardar played 3 Test matches for India, scoring a total of 80 runs at an بلے بازی اوسط (کرکٹ) of 16.00. He then became the inaugural captain of Pakistan.
- ↑ Simon Wilde (13 November 2005)۔ "The top 10 Pakistan Test cricketers"۔ The Sunday Times۔ London۔ 04 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2010
- ↑ "Player Profile: Abdul Kardar"۔ ای ایس پی این کرک انفو۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جنوری 2010
- ↑ https://www.express.pk/story/1526483/268/
- ↑ https://www.express.pk/story/1526483/268/
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/27-Apr-2020/1152802
- ↑ https://www.nawaiwaqt.com.pk/27-Apr-2020/1152802
- ↑ 17 اگست، پاکستان کرکٹ کی تاریخ کا یادگار ترین دن
- ↑ پاکستان کا پہلا قائد