دیوگیری پر علاء الدین خلجی کا حملہ
سنہ 1296ء میں علاء الدین خلجی نے دیوگیری پر لشکر کشی کی جو ہندوستان کے خطہ دکن میں یادو مملکت کا پایہ تخت تھا۔ اس لشکر کشی کے وقت علاء الدین سلطنت دہلی کی جانب سے آڑہ کے حاکم اور جلال الدین خلجی سلطان تھے۔ علاء الدین نے دیوگیری پر لشکر کشی کی خبر کو سلطان جلال الدین سے پوشیدہ رکھا تاکہ فتح کے بعد حاصل شدہ مال غنیمت کی مدد سے سلطان کو تخت سے اتارا جا سکے۔
جب علاء الدین دیوگیری پہنچے تو یادو راجا رام چندر اپنے پہاڑی قلعے میں محصور ہو گئے۔ علاء الدین کی افواج کو میدان خالی ملا تو انھوں نے سارے شہر کو لوٹ لیا۔ قلعے کے محصورین محاصرہ کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کیونکہ سلطنت کی اپنی فوج راجا رام چندر کے فرزند سنہان کے ہمراہ ایک مہم پر گئی ہوئی تھی اور قلعہ میں غلہ اور اناج کا کافی ذخیرہ بھی موجود نہیں تھا۔ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے راجا رام چندر نے ایک بڑی رقم کے عوض علاء الدین کو صلح کی پیش کش کی جس پر فریقین راضی ہو گئے۔ لیکن اچانک سنہان مع لشکر وارد ہوئے اور یوں مصالحتی کوشش رک گئی اور میدان جنگ گرم ہو گیا۔
میدان جنگ میں علاء الدین فتحمند رہے اور یادو راجا کو مذکوہ معاہدہ صلح پر مجبور کیا۔ تاہم اس وقت ان کو تاوان جنگ بھی ادا کرنا پڑا اور ساتھ ہی اچلپور کی مالگزاری بھی بطور خراج پیش کرنی پڑی۔ دیوگیری میں مزید کچھ دن گزارنے کے بعد علاء الدین کڑہ واپس آگئے۔ بعد ازاں انھوں نے سلطان جلال الدین کو ہٹا کر خود تخت سلطنت پر متمکن ہوئے اور سنہ 1308ء میں فتح دیوگیری کی غرض سے دوسری مہم روانہ کی جس کے بعد راجا رام چندر تخت دہلی کے مطیع ہو گئے۔
نتیجہ
ترمیمعلاء الدین کا دیوگیری پر یہ حملہ خطہ دکن پر مسلمان فاتحین کا پہلا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔[1][2] یہاں سے ملنے والے مال غنیمت کو سلطان جلال الدین خلجی کے حضور پیش کرنے کی بجائے علاء الدین اسے اپنے ساتھ کڑہ لے گئے۔ بعد ازاں سلطان جلال الدین کو وہیں بلایا اور انھیں قتل کر دیا۔ سلطان کے قتل کے بعد علاء الدین تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوئے اور سلطان کہلائے۔[3] سنہ 1300ء کی دہائی میں جب رام چندر نے اپنا سالانہ خراج بھیجنا بند کر دیا تو علاء الدین نے انھیں زیر کرنے کے لیے ایک بڑا لشکر روانہ کیا۔ دیوگیری کی اس دوسری مہم کے نتیجے میں دیوگیری سلطنت دہلی کی عملداری میں شامل ہو گیا اور رام چندر علاء الدین کے محکوم بن گئے۔[4]
علاء الدین نے راجا رام چندر کی بیٹی ستیہ پلی سے بیاہ کیا تھا جن سے اگلا خلجی فرماں روا شہاب الدین عمر پیدا ہوئے۔ مورخ کشوری شرن لال کا کہنا ہے کہ رام چندر نے 1296ء کے حملے کے بعد ہی اپنی بیٹی کا بیاہ علاء الدین سے کر دیا تھا[5] جبکہ ستیش چندر کی تحقیق کے مطابق یہ بیاہ دوسری مہم کے بعد انجام پایا۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ George Michell اور Mark Zebrowski 1999، صفحہ 5
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 51
- ↑ Banarsi Prasad Saksena 1992، صفحہ 323-324
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 188-193
- ↑ Kishori Saran Lal 1950، صفحہ 56-57
- ↑ Satish Chandra 2004، صفحہ 92
کتابیات
ترمیم- George Michell؛ Mark Zebrowski (1999)۔ Architecture and Art of the Deccan Sultanates۔ Cambridge University Press۔ ISBN:978-0-521-56321-5۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-28
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Banarsi Prasad Saksena (1992) [1970]۔ "The Khaljis: Alauddin Khalji"۔ بہ Mohammad Habib and Khaliq Ahmad Nizami (مدیر)۔ A Comprehensive History of India: The Delhi Sultanat (A.D. 1206–1526) (Second ایڈیشن)۔ The Indian History Congress / People's Publishing House۔ ج 5۔ OCLC:31870180
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Kishori Saran Lal (1950)۔ History of the Khaljis (1290–1320)۔ Allahabad: The Indian Press۔ OCLC:685167335
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت) - Satish Chandra (2004)۔ Medieval India: From Sultanat to the Mughals-Delhi Sultanat (1206–1526) – Part One۔ Har-Anand Publications۔ ISBN:978-81-241-1064-5۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-05-28
{{حوالہ کتاب}}
: پیرامیٹر|ref=harv
درست نہیں (معاونت)