دی داؤد فاؤنڈیشن
دی داؤد فاؤنڈیشن (ٹی ڈی ایف) کراچی، پاکستان میں واقع ایک بِلا منافع خاندانی ادارہ ہے۔ ٹی ڈی ایف پاکستان میں 1960ء کی دہائی سے کام کر رہا ہے اور ملک بھر میں کئی رسمی و غیر رسمی تعلیمی اداروں کے قیام میں شامل رہا ہے۔
بانی | احمد داؤد |
---|---|
قیام | 1960 [1] |
صدر دفتر | کراچی, پاکستان |
کلیدی لوگ | سبرینا داؤد (سی ای او),حسین داؤد (کو-چیئر), کلثوم داؤد (کو-چیئر) |
خدمت دائرہ کار | تعلیم، صحت |
طریقہ کار | عطیات اور گرانٹس |
ملازمین | 73 بمطابق 2021ء |
شعار | "ایسی تعلیم جو سماجی تبدیلی کو فروغ دے" |
موقعِ حبالہ | org/ دی داؤد فاؤنڈیشن |
تاریخ
ترمیمدی داؤد فاؤنڈیشن (ٹی ڈی ایف) 1960ء میں احمد داؤد نے قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا خیال ایک تعلیمی فاؤنڈیشن کی حیثیت سے پیش کیا گیا تھا، جس کی بنیادی توجہ سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق کے شعبوں میں تعلیمی منصوبوں کو سہارا اور فروغ دینا تھا۔
بورڈ آف ٹرسٹیز اور قیادت
ترمیمفاؤنڈیشن کی رہنمائی ایک بورڈ آف ٹرسٹیز کرتا ہے جو حسین داؤد (کو-چیئر)، کلثوم داؤد(کو-چیئر)، شہزادہ داؤد (ٹرسٹی)، صمد داؤد (ٹرسٹی)، کرسٹین داؤد (ٹرسٹی)، انعام الرحمٰن (ٹرسٹی)، شفیق احمد (ٹرسٹی) اور سبرینا داؤد (ٹرسٹی/سی ای او) پر مشتمل ہے۔ ٹی ڈی ایف روزمرہ بنیادوں پر سبرینا داؤد کی قیادت میں کام کرتا ہے۔
تعلیم پر توجہ
ترمیمٹی ڈی ایف کی زیادہ تر توجہ اور کام رسمی تعلیم کے شعبے میں ہے۔ غیر رسمی تدریس کے یہ منصوبے معاشرے کے ہر طبقے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تیار کیے گئے ہیں، جن میں سیکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنے والے اور جسمانی معذوری رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی سی ای ٹی)
ترمیمٹی ڈی ایف نے 1964ء میں کراچی میں داؤد کالج آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی سی ای ٹی) کی بنیاد رکھی تاکہ پاکستان کی انجینیئرز اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ یہ فاؤنڈیشن کا پہلا بڑا تعلیمی منصوبہ تھا۔ ڈی سی ای ٹی کو 1971ء میں قومیا لیا گیا تھا۔ قابلِ ستائش تعلیمی معیار اور فارغ التحصیل طلبہ کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ڈی سی ای ٹی کو 2013ء میں جامعہ کا درجہ دیا گیا اور اس کا نام داؤد یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (ڈی یو ای ٹی) رکھ دیا گیا۔
کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ (کے ایس بی ایل)
ترمیمکراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ (کے ایس بی ایل) کراچی، پاکستان میں واقع ایک آزاد گریجویٹ بزنس اسکول ہے۔ یہ اسکول 2009ء میں کراچی ایجوکیشن انیشی ایٹو (کے ای آئی) اور کیمبرج جج بزنس اسکول کے درمیان تزویراتی تعاون سے بنایا گیا تھا۔
ایف جی داؤد پبلک اسکول
ترمیممظفر آباد کا فیڈرل گورنمنٹ داؤد پبلک اسکول ان تعلیمی اداروں میں سے ایک تھا جو 2005ء کے کشمیر زلزلے میں تباہ ہو گئے تھے اور ٹی ڈی ایف نے انھیں دوبارہ تعمیر کیا۔ 2008ء میں افتتاح کے بعد اس اسکول کو 'ایف جی داؤد پبلک اسکول' کا نام دیا گیا۔ اس میں میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والے 800 سے 1000 طلبہ ہیں۔
احمد داؤد گورنمنٹ ہائی اسکول، درسانو
ترمیماحمد داؤد اسکول داؤد ٹرسٹ، جسے بعد میں بدل کر داؤد فاؤنڈیشن کا نام دیا گیا تھا، کے ابتدائی منصوبوں میں سے ایک تھا، جو 1959ء میں کراچی کے نواحی گاؤں درسانو میں قائم کیا گیا تھا جو اب ملیر کا حصہ ہے۔ یہ اسکول حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا اور آج بھی یہاں تعلیمی سلسلہ جاری ہے۔ اس اسکول میں ابتدائی اور ثانوی درجے کے تقریباً 400 طلبہ ہیں۔
گورنمنٹ بوائز بی ٹی ایم ہائی اسکول
ترمیمجنوبی پنجاب میں داؤد خاندان کے سابق اداروں میں سے ایک بوریوالا ٹیکسٹائل ملز ہے، جس کے گرد و نواح میں مقیم آبادی کو تعلیمی خدمات فراہم کرنے کے لیے ٹی ڈی ایف نے 1955ء میں گورنمنٹ بوائز بی ٹی ایم ہائی اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کو 1972ء میں قومیا لیا گیا تھا اور یہ اب بھی سرکاری انتظامیہ کے تحت چلتا ہے۔ اسکول کی ملکیت اور اس کے میدان بدستور ٹی ڈی ایف کے پاس ہیں۔ اسکول اس وقت 750 سے زیادہ طلبہ کو تعلیم فراہم کر رہا ہے۔
احمد داؤد چیئر، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس)
ترمیملاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمس) میں شعبے کے اعلیٰ معیارات اور تعلیمی میدان میں نمایاں حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے 2003ء میں ٹی ڈی ایف کی جانب سے ایس بی اے اسکول آف سائنس اینڈ انجینیئرنگ ڈین کے لیے احمد داؤد چیئر کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
غیر رسمی تعلیمی منصوبے
ترمیمٹی ڈی ایف کی غیر رسمی تدریسی سرگرمیوں میں ٹی ڈی ایف میگنفی سائنس سینٹر سے سائنس کا فروغ شامل ہے، اس کے علاوہ ٹی ڈی ایف نیچر سیریز کے ذریعے ماحول کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور ٹی ڈی ایف گھر سے غیر رسمی تدریسی مقامات اور ثقافتی ورثے کا تحفظ شامل ہیں۔
ٹی ڈی ایف میگنفی سائنس
ترمیمٹی ڈی ایف 2016ء سے سائنسی تعلیم کو فروغ دینے اور ساتھ ساتھ اسٹیم (یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضی کے) مضامین کی مہارت بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ فاؤنڈیشن نے پاکستان کی سب سے بڑی سائنسی نمائش کا انعقاد کیا اور ملک میں پہلا چلڈرنز سائنس اسٹوڈیو، ٹی ڈی ایف میگنفی سائنس چلڈرنز اسٹوڈیو، قائم کیا۔۔ اس اسٹوڈیو کو ستمبر 2021ء میں تب بند کر دیا گیا جب کراچی میں اس سے کہیں بڑا اور ملک کا پہلا جدید اور انٹرایکٹو سائنس سینٹر، دی میگنفی سائنس سینٹر، کھولا گیا۔ [2]
ٹی ڈی ایف نیچر سیریز
ترمیمفاؤنڈیشن نے 2015ء میں پاکستان میں زوال کے شکار قدرتی مساکن کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ٹی ڈی ایف نیچر سیریز کا آغاز کیا۔ یہ سیریز مختلف دستاویزی فلموں کا مجموعہ ہے جو پاکستان میں قدرتی مساکن کی کئی اقسام کا احاطہ کرتا ہے۔ ان دستاویزی فلموں میں مارگلہ کی پہاڑیاں – شہری جنگل، چترال گول کے چٹانی پیادے، تمر – ساحل کے نگہبان اور قراقرم کے منجمد دیو شامل ہیں۔ یہ دستاویزی فلمیں دیکھنے کے لیے مفت دستیاب ہیں اور ملک بھر کے اسکولوں، عوامی مقامات اور فلمی میلوں میں دکھائی بھی گئی ہیں۔ [3]
ٹی ڈی ایف گھر
ترمیمفاؤنڈیشن کے غیر رسمی تدریسی منصوبوں میں ٹی ڈی ایف گھر بھی شامل ہے۔ یہ 1930ء کی دہائی میں بنائی گئی ایک پرانی عمارت ہے، جسے 2017ء میں بحال کر کے ماضی کی جھلک دکھانے والے ایک 'زندہ عجائب گھر' اور غیر رسمی تدریسی مقام کی حیثیت دی گئی۔ ٹی ڈی ایف گھر میں اُن ان گنت ثقافتی اثرات اور افراد کو ظاہر کیا جاتا ہے جن کا کراچی کے ماضی سے تعلق ہے۔ ٹی ڈی ایف گھر میں موجود فرنیچر تک مسلم، ہندو، مسیحی، پارسی اور یہودی روایات کے ملاپ کو ظاہر کرتا ہے۔ ٹی ڈی ایف گھر ان ثقافتی ورثوں کی خصوصیات کو محفوظ اور پیش کرتا ہے تاکہ کراچی کے عوام کو شہر کی ایک مختلف نوعیت اور پُر امن مقام کی حیثیت یاد دلائی جائے۔ ٹی ڈی ایف گھر میں کراچی کی تاریخ کے حوالے سے نمائشوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور فن، موسیقی اور ثقافت کے فروغ کے لیے تقریبات کی میزبانی بھی کی جاتی ہے۔ [4]
صحت کی سرگرمیاں اور آفات میں امداد
ترمیمخدمتِ حلق کے ادارے کی حیثیت سے ٹی ڈی ایف قدرتی آفات کے موقع پر امدادی سرگرمیوں میں بھی شامل رہا ہے جیسا کہ 1960ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں آنے والے سمندری طوفان، 2005ء اور 2008ء میں بالترتیب کشمیر اور بلوچستان میں آنے والے زلزلے، 2010ء میں سندھ اور پنجاب میں آنے والا سیلاب اور 2012ء میں تھر کی قحط سالی۔ اس نے مختلف ہسپتالوں اور طبّی منصوبوں کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی جن میں الشفا آئی ٹرسٹ ہسپتال اور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال میں مختلف عمارتوں کی تعمیر بھی شامل ہیں۔ داؤد فاؤنڈیشن نے اینگرو فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر حسین داؤد پلیج کے لیے سرمایہ بھی فراہم کیا، جو پاکستان میں کووِڈ-19 کی وبا کے خلاف منصوبوں میں سب سے بڑے نجی عطیات میں سے ایک ہے۔[5]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 22 اپریل 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2022
- ↑ صادقہ خان (28 نومبر 2021)۔ "پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی کاوش، ٹی ڈی ایف میگنی فائی انٹریکٹو سائنس سینٹر | DW |"۔ Deutsche Welle۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اپریل 2022
- ↑ اُردو پوائنٹ (29 اکتوبر 2015)۔ ۔ اُردو پوائنٹ https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2015-10-29/news-525153.html۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2022 مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت) - ↑ مختار احمد (28 ستمبر 2018)۔ "گھر یا عجا ئب گھر"۔ ایکسپریس اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2022
- ↑ مختار احمد (8 اپریل 2020)۔ "مخیر حسین داؤد نے وائرس سے لڑنے کے لیے پاکستان کو 20 ملین درہم کا عطیہ دیا ہے۔"۔ خلیج اردو۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مئی 2022