ذوالفقاراحمد
ذو الفقار احمدانگریزی:Zulfiqar Ahmed (پیدائش: 22 نومبر 1926ء لاہور، پنجاب) | (وفات: 3 اگتوبر 2008ء کمبائنڈ ملٹری ہسپتال، لاہور) کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ 53-1952ء میں بھارت کے خلاف لکھنؤ میں اولین ٹیسٹ کامیابی حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے اور 1954ء میں اوول کی تاریخی کامیابی حاصل کرنے والی پاکستانی ٹیم کا بھی حصہ تھے[1] ذو الفقار احمد سابق کپتان عبد الحفیظ کاردار کے برادر نسبتی تھے۔ ذو الفقار احمد کا ٹیسٹ کریئر بہت مختصر رہا۔ انھوں نے چار سال کے دوران 9 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی جن میں 18.30 کی اوسط سے ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 20 رہی۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کی حاصل کردہ وکٹوں کی تعداد 162 ہے۔
فائل:Zulfiqar Ahmed 1954.jpg ذو الفقار احمد 1954ء میں | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
پیدائش | 22 نومبر 1926 لاہور, صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
وفات | 3 اکتوبر 2008 کمبائنڈ ملٹری اسپتال, لاہور, پاکستان | (عمر 81 سال)|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | دائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا آف بریک گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 13) | 23 اکتوبر 1952 بمقابلہ بھارت | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 11 اکتوبر 1956 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرک انفو، 12 جولائی 2019 |
عمدہ کارکردگی
ترمیمذو الفقار احمد کی سب سے عمدہ کارکردگی 56-1955ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں رہی جب انھوں نے پہلی اننگز میں37 رنز دے کر5 اور دوسری اننگز میں 42 رنز کے عوض 6 وکٹیں حاصل کیں اور پاکستانی ٹیم کی ایک اننگز اور ایک رن کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ 1952-53ء میں بھارت کے خلاف مدراس ٹیسٹ میں ذو الفقار احمد نے امیر الہی کے ساتھ آخری وکٹ کے لیے 104 رنز کا اضافہ کیا تھا جس میں ان کا حصہ کریئر بیسٹ ناقابل شکست 63 رنز کا تھا۔
آخری ٹیسٹ
ترمیمانھوں نے اپنا آخری ٹیسٹ 1956ء میں آسٹریلیا کے خلاف کراچی میں کھیلا تھا۔ وہ جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے کے لیے مشہور تھے۔ 1957-58ء میں دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں جگہ نہ بناسکے تھے تاہم وہ اس دورے میں بطور صحافی ٹیم کے ساتھ تھے۔
اعداد و شمار
ترمیمذو الفقار احمد نے 9 ٹیسٹوں کی 10 اننگز میں 4 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر ناقابل شکست 63 سب سے زیادہ رنزوں کی مدد سے 200 رنز سکور کیے۔ ایک نصف سنچری کی مدد سے بننے والے ان رنزوں کی اوسط 33.33 تھی جبکہ 61 فرسٹ کلاس میچوں کی 71 اننگز میں 20 دفعہ ناٹ آئوٹ رہ کر 975 رنز بنائے جس میں 73 ان کا سب سے زیادہ سکور اور 19.11 ان کی فی اننگ اوسط تھی۔ فرسٹ کلاس میچوں میں انھوں نے 4 نصف سنچریاں بھی سکور کی تھیں۔ اسی طرح ٹیسٹ کرکٹ میں ذو الفقار احمد نے 366 رنز دے کر 20 وکٹیں نکال لی تھیں۔ 42/6 ان کی کسی ایک اننگ میں سب سے بہترین بائولنگ تھی جبکہ 79/11 بولنگ میں ان کی طرف سے کسی ایک میچ کی بہترین کارکردگی سامنے آئی جبکہ انھیں فی وکٹ 18.30 کی اوسط حاصل ہوئی تھی تاہم فرسٹ کلاس کرکٹ میں 3559 کے عوض وہ 162 وکٹوں کے مالک تھے۔ 69/7 کی کارکردگی ان کی کسی ایک اننگ میں سب سے اچھی بولنگ پرفارمنس تھی۔ انھیں 21.96 کی اوسط سے وکٹیں حاصل ہوئیں۔ انھوں نے 12 دفعہ کسی ایک اننگ میں 5 یا اس سے زائد وکٹیں حاصل کیں جبکہ 3 دفعہ وہ ایک اننگ میں 10 وکٹوں تک رسائی کے حامل رہے[2]
اعزازات و وفات
ترمیمذو الفقار احمد زندہ دل شخصیت کے مالک تھے ان کے برجستہ جملے اور جگتیں محفلوں کی جان ہوتی تھیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کے اولین ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑیوں کو گولڈ میڈل دیے تھے جن میں ذو الفقار احمد بھی شامل تھے۔ان کا انتقال 3 اکتوبر 2008ء میں 81 برس اور 316 دن کی عمر میں ہوا۔