ذیشان علی خان
ذیشان خان بھارت کے ایک 23 سالہ ایم بی اے گریجویٹ کا نام ہے۔ ممبئی سے وابستہ یہ جواں سال لڑکا اس وقت سرخیوں کا حصہ بن گیا جب کہ اسے ملک کی تاریخ میں ایک تجارتی کمپنی نے واضح انداز میں لکھ کر یہ اطلاع دی کہ اسے ملازمت صرف اس لیے نہیں دی جا سکتی کیونکہ وہ ایک مسلمان ہے اور ادارہ صرف غیر مسلموں کی بھرتی کرتا ہے۔
واقعہ
ترمیمذیشان نے 19 مئی،2015ء کو شام 5 بج کر 45 منٹ پرممبئی کی ایک مشہور کمپنی ہرے کرشنا ایکسپورٹس پرائیویٹ لیمیٹیڈ کو ای میل کے ذریعے بازارکاری (مارکٹنگ) کی ملازمت کے لیے درخواست بھیجی۔ اس کے پندرہ منٹ کے اندر اسے یہ جواب ملا کہ "ہم معذرت کے ساتھ آپ کو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ ہم صرف غیر مسلم امیدواروں کی بھرتی کرتے ہیں۔"[1]
رد عمل
ترمیمبے حد جلدی اور مذہبی خطوط پر کام نہ دینے کے فیصلے سے مایوس ذیشان نے اس ای میل کے متن کو سماجی میڈیا پر پیش کیا جہاں اس کمپنی کے رویے کی سخت مذمت کی گئی۔ کمپنی کے انسانی وسائل کے صدر نے وضاحت کی کہ یہ ای میل کمپنی کی زیر تربیت ملازمہ کی جانب سے غلطی سے بھیجا گیا اور کمپنی جنس، ذات پات، مذہب وغیرہ کی بنیاد پر لوگوں میں فرق نہیں کرتی۔[1]
ایک اور کمپنی کے افسر نے وضاحت کی جس انسانی وسائل کی زیر تربیت ملازمہ نے یہ ای میل بھیجا تھا، اسے معطل کر دیا گیا یے۔ کمپنی کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ اس کے پچاس سے زائد ملازمین اقلیتی فرقوں سے وابستہ ہیں اور 28 ریاستوں کے لوگ کمپنی کے زیر ملازمت ہیں۔ تاہم ہندوستان ٹائمز نے بات پر شک کا اظہار کیا۔ دیگر کئی لکھنے والوں نے اس بات پرغصے کا اظہار کیا کہ 2014ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے بر سر اقتدار آنے سے ہی ملک کا ماحول یکسر بدل چکا ہے۔[2]
قانونی پہل
ترمیمذیشان نے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ مہاراشٹر حکومت نے اس واقعے پر کارروائی کا وعدہ کیا تھا۔[2] تاہم اس کے آگے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
بھارت کی مرکزی حکومت کا موقف
ترمیممرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نجمہ ہبت اللہ نے اس واقعے پر تشویش کا اظہار کیا۔ تاہم انھوں نے مذہبی امتیازات سے متعلق کسی بھی قانون سازی سے انکار کر دیا۔[3] اس کے علاوہ خاطی کمپنی سے مرکزی حکومت نے نہ تو کوئی وضاحت طلب کی اور نہ ہی کسی قسم کی تادیبی کارروائی کی پہل کی۔
گوتم آدانی گروپ میں ملازمت
ترمیماس واقعے کے بعد ذیشان کو بارہ ملازمتوں کی پیش کش کی گئی، مگر اس نے ان سب کو ٹھکرا دیا کیونکہ وہ ہمدردی کی بنیاد پر کسی ملازمت کا خواہش مند نہیں خواہش مند نہیں تھا۔ تاہم جب اسے آدانی گروپ کی جانب سے ملازمت پیش کی کئی، اس نے اس کمپنی کی پیشکش کو قبول کر لیا کیونکہ یہ ملک کی سب سے بڑی بنیادی ڈھانچوں کی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ ذیشان آدانی گروپ کی ممبئی شاخ میں ایگزیکیٹیو ٹرینی کے طور پر شامل ہوا۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ اس کمپنی کے وزیر اعظم بھارت، نریندر مودی سے قریبی روابط ہیں۔[4]
شیو سینا کا موقف
ترمیماس واقعے کے وقت مہاراشٹر میں بی جے پی کی حلیف شیو سینا نے اپنے ترجمان سامنا کے اداریے میں کہا
” | اگر ایسی کوئی بات ہوئی ہے تو وہ سخت ترین الفاظ میں قابل مذمت ہے... اس لڑکے کو ملازمت مذہب کی بنیاد پر نہیں دی گئی تھی، تاہم اب اسے اس سے بہتر پیش کش آدانی کروپ کی جانب سے ملی ہے، اور وہ خوش ہے...آگے بڑھو ذیشان...! | “ |
بھارت کے دستور کا موقف
ترمیمبھارت کے دستور کی دفعہ 16 کے تحت یہ بھی ایک بنیادی حق بنتا ہے کہ ریاست ہرشخص کو ملازمت کے معاملوں میں مساوی انداز میں دیکھے۔ اسی دفعہ کے تحت یہ بھی مذکور ہے کہ کسی بھی شہری کو نسل، ذات پات، مذہب، عقائد، خاندان یا مقام پیدائش کی بنیاد پرکسی ملازمت یا ریاست کے کسی عہدے سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ اس میں ایک ہی استثناء تحفظات یا رہزرویشن کی شکل میں موجود ہے۔[6]
عالمی سطح پر مساوی حقوق کا تصور
ترمیمریاستہائے متحدہ امریکا اور کئی مغربی ممالک مساوی حقوق (انگریزی: Equal Opportunities) کے تصور کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ امریکا کے 1964ء کے شہری حقوق قانون کے تحت مساوی حقوق کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت نسل، رنگ، مذہب، جنس یا قومی پیدائش کی بنیاد پر ملازمت میں ہر قسم کے امتیاز پر روک لگائی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے آجرین بھرتی، برخاستگی، ترقی، اجرت اور دیگر ملازمت کے فیصلوں میں کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں کرسکتے۔[7]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب Muslim MBA graduate denied job because of his religion! - India.com
- ^ ا ب Indian man denied job for 'being Muslim' - BBC News
- ↑ "Najma Heptulla deplores incident of man being denied job over religion - The Economic Times"۔ 09 اکتوبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2015
- ↑ MBA grad Zeeshan Ali Khan who was denied a job for being Muslim accepts offer from Adani - Firstpost
- ↑ Shiv Sena blesses Muslim MBA who was denied job
- ↑ http://www.iloveindia.com/constitution-of-india/right-to-equality.html
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 08 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 نومبر 2015