راسخ دہلوی – مولانا حافظ عبد الرحمٰن (پیدائش: 1863ء–وفات: 29 ستمبر 1907ء) اردو زبان کے شاعر، ادیب، محدث اور عالم تھے۔راسخ کی وجہ شہرت بحیثیت شارح مثنوی مولانا روم سے ہے۔راسخ عہدِ داغؔ کے قادر الکلام، ممتاز اور صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

راسخ دہلوی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1863ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پانی پت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 29 ستمبر 1907ء (43–44 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دہلی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  ادیب ،  محقق ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  فارسی ،  عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

ابتدائی حالات

ترمیم

راسخ کی پیدائش 1863ء میں پانی پت میں ہوئی۔راسخ دہلوی کاپیدائشی نام عبد الرحمٰن تھا جبکہ تخلص راسخؔ تھا۔راسخ کا لقب خلَّاق المعانی تھا۔ راسخ کا تعلق پانی پت سے تھا مگر عمر کا بڑا حصہ دہلی میں بسر ہوا۔

مطالعہ و شاعری

ترمیم

کمسنی سے ہی مطالعے اور کتب بینی کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ فقہ، علم معقولات و منقولات اور کتب ہائے حدیث پر کامل عبور تھا۔ اوائل عمری سے ہی مشقِ سخن کی جانب مائل ہو گئے تھے۔ ابتدا میں مشقِ سخن میں مرزا اَرشد، سیف الحق ادیب دہلوی، پنڈت جواہرناتھ ساقیؔ کے ہم مشق و ہم صحبت رہے۔ داغ دہلوی کے ہم عصر تھے۔ مثنوی مولانا روم کی جو شرح راسخ نے لکھی ہے، وہ صوفیائے کرام میں بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ شاعری میں صرف پہلا مجموعۂ کلام ’’مرآۃ الخیال‘‘ کے نام سے 1895ء ـ 1896ء میں شائع ہوا۔ دوسرا دیوان راسخ کی بیگم کے پاس محفوظ تھا جو شائع نہیں ہو سکا[1]۔یقیناً انھوں نے میدانِ سخن میں بہت سے اشعار کہے ہوں گے مگر اُن کا شعری مجموعہ ’’مجموعہ انتخاب کلامِ راسخؔ‘‘ کے عنوان سے 1928ء میں شائع ہوا، میں صرف 85 غزلیں اور 11 رباعیات پر مشتمل ہے جو ایک انتہائی لائق مشقِ سخن شاعر کے باقی ماندہ کلام کی حیرت انگیز داستان ہے۔[2]

پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی دہلوی‘ منشی چندربھان کیفیؔ کے شعری مجموعے ’’خمستانِ کیفیؔ‘‘ میں راسخ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : ’’ پچھلی صدی کے آخری ربع کا ذِکر ہے کہ دہلی بالکل خالی ہو گئی تھی یعنی یہاں کی ادبی فضاء سنسان تھی۔ انورؔ اور مائلؔ جے پور، حالیؔ اور راشدؔ پنجاب میں، ظہیرؔ اور سالکؔ دکن چلے گئے تھے۔ یہ صورت حال تھی کہ مولوی عبد الرحمٰن راسخؔ کا دہلی آنا ہوا۔ اِن کے آنے سے دہلی کی ادبی فضاء چمک اُٹھی۔ وہ بہت اچھے شاعر تھے اور علومِ مشرقیہ کے ماہر اور فن کے نِکات سے آگاہ تھے۔ اُن کی توجہ اور شفقت سے بہت سے نوجوانوں نے فائدہ اُٹھایا اور شاعری کی دنیا میں چمکے۔[3]

وفات

ترمیم

راسخ دہلوی کا اِنتقال 44 سال کی عمر میں 29 ستمبر 1907ء کو دہلی میں ہوا۔

کتابیات

ترمیم
  • لالہ سری رام: خمخانۂ جاوید، مطبوعہ لاہور، 1908ء
  • عظیم اختر: بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد 2، مطبوعہ اُردو اکادمی، دہلی، 2005ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. خمخانہ جاوید، جلد 3، صفحہ 334۔
  2. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد1، صفحہ 61۔
  3. بیسویں صدی کے شعرائے دہلی، جلد1، صفحہ 60۔