رالف رسل
برطانیہ میں بابائے اردو کہلانے والے[حوالہ درکار] اردو زبان کے استاد رالف رسل 21 مئی، 1918ء[1] کو لندن، برطانیہ میں پیدا ہوئے۔[حوالہ درکار] رالف رسل سولہ سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے تھے۔[حوالہ درکار] انھوں نے 1940ء میں جامعۂ کیمبرج میں تعلیم مکمل کی اور دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اس دوران انھوں نے ساڑھے تین سال انڈیا میں گزارے۔ [حوالہ درکار]
ہندوستان آمد
ترمیمانھوں نے انڈیا میں فوج کی نوکری کے دوران اردو سیکھی۔ لیکن یہ نوکری کی ضرورت نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اردو اس لیے سیکھی کہ وہ ان لوگوں کے کام آ سکیں جن کی خدمت کمیونزم کا مقصد تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے ان سپاہیوں میں سیاسی شعور بیدار کرنا چاہتے تھے جنہیں بھرتی ہی اسی لیے کیا گیا کہ وہ ’غیر سیاسی‘ تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے رسالے پڑھنا شروع کر دیے بلکہ چندہ بھی دینے لگے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد انھوں نے اردو اور سنسکرت میں ڈگری حاصل کی۔ [حوالہ درکار]
لہجہ
ترمیمرالف رسل کے لہجہ میں پٹھانوں کا لہجہ غالب تھا۔ انھوں نے ایک بار رالف رسل جس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ’انڈین آرمی میں میرے اردو کے منشی ایک پٹھان تھے۔ انھیں سے میں نے یہ لہجہ اپنایا پھر فوج میں میرے ساتھ ایک پٹھان محمد نواز تھے جو برما کے محاذ پر ایک ہی خیمہ میں رہتے تھے۔ ان کے لہجہ نے مجھ پر ایسا اثر چھوڑ کہ اب تک نہیں گیا۔‘ [حوالہ درکار]
نجی زندگی
ترمیم1948ء میں رسل کی شادی ہوئی۔ مگر مزاجوں کے اختلاف کی وجہ سے 1989ء میں ان کا طلاق ہو گئی تھی۔[2]
کمیونسٹ تحریک سے وابستگی
ترمیمرسل 1936ء کے آس پاس کمیونسٹ ہو گئے تھے۔ تاہم وہ کمیونسٹ تحریک کے قائدین کو جھوٹے ظالموں یا ان کے حامیوں سے پاک نہیں مانتے تھے۔[3]
شاونزم کی مخالفت
ترمیمرسل ہر قسم کی شاونزم کے مخالف تھے، بھلے ہی اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا ملک سے ہو۔[4]
اردو کی خدمت
ترمیمانھوں نے اپنی زندگی اردو زبان میں تحقیق اور درس و تدریس میں گزاری۔ انھوں نے انڈیا اور پاکستان میں کافی وقت گزارا تھا۔ ان کی تصانیف میں ’تھری مغل پوئٹس‘ جو انھوں نے خورشید الاسلام کے ساتھ مِل کر لکھی تھی، ’غالب: لائف اینڈ لیٹرز‘ اور ’اے نیو کورس ان اردو اینڈ سپوکن ہندی‘ شامل ہیں۔ وہ انیس سو انچاس سے انیس سو اکیاسی تک جامعۂ لندن میں اردو زبان کی تعلیم دیتے رہے۔
مختلف شخصیات اور موضوعات رالف رسل کی رائے
ترمیمموہن داس گاندھی
ترمیمرسل کی رائے میں موہن داس گاندھی مزدوروں کے مفاد پر زمیندراروں اور سرمایہ داروں کے مفاد کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم ہندو مسلم فسادات کو روکنے میں گاندھی کے اقدامات کے وہ مداح تھے۔[5]
سر سید احمد خان
ترمیمرسل کی رائے میں سر سید احمد خان کی علمی تحریک صرف طبقہ اشرافیہ کے لیے مخصوص تھی۔[5]
محمد علی جناح
ترمیمرسل محمد علی جناح کی لسانی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے تھے کہ مشرقی پاکستان کے عوام پر اردو نافذ کی جائے۔ وہ اسے بنگالی زبان کے ساتھ ناانصافی سمجھتے تھے۔[5]
کرشن چندر
ترمیمرسل جب بھی بمبئی آتے کرشن چندر کے یہاں ٹھہرتے۔ وہ کرشن چندر کو عمدہ آدمی مگر کرشن کی تین چوتھائی تخلیقات کو فضول مانتے تھے۔ تاہم رسل وہ ایک چوتھائی کو بہت عمدہ مانتے تھے۔[6]
عزیز احمد
ترمیمعزیز احمد اسکول آف ایفریکن اینڈ اورینٹل اسٹڈیز میں پڑھاتے تھے۔ وہ رسل کے نزدیکی تھے۔ بلکہ رسل نے ان کی ناول ایسی بلندی ایسی پستی کا انگریزی ترجمہ دی شورز اینڈ دی ویو کے طور پر کیا تھا۔ تاہم عزیز احمد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رسل نے یہ خیال کا اظہارکہ وہ نیک نامی سے زیادہ بدنامی کے حامل تھے کیونکہ ہر کوئی بہ آسانی پہچان سکتا تھا کہ ان کے افسانوی کردار کہاں سے آئے ہیں۔[7]
قرۃ العین حیدر
ترمیمرسل رالف نے قرۃ العین حیدر کی دولسانی قابلیت پر سوالیہ نشان لگایا۔ ان کے نزدیک قرۃ العین حیدر نے حسین شاہ کے ناول نشتر کا انگریزی میں بامحاورہ ترجمہ کیا تھا جو ظاہرًا عمدہ ہو کر بھی جا بہ جا موزونیت سے خالی تھا۔[8]
اردو غزل
ترمیمرسل رالف نے اپنے جوانی کے دنوں میں لوگوں کے اس خیال سے عدم اتفاق کیا کہ غزل زوال پزیر ہے۔ ان کے مطابق وہ ایک باقی رہنے والی توانا صنف ہے۔[9]
اقبال
ترمیمرسل اقبال کے نظریہ خودی سے متفق تھے مگر وہ اقبال کے مسلمانوں کی تاریخ کے نظریے کو ناقابل فہم اور فرسودہ قرار دیتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اقبال کو عظیم فارسی شاعر تسلیم نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق اہل ایران کسی غیر اہل زبان کو اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ رسل نے مثال پیش کی کہ جاویدنامہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال نادر شاہ کے مداح تھے جس نے ہزا رہا بے گناہ مسلمانوں کا قتل کیا اور یہ شاعر کی طاقت سے مرعوبیت کا اشارہ کرتی ہے۔[10]
پاکستان کے حکمران طبقوں پر تنقید
ترمیمرسل کے مطابق حالانکہ اردو کو پاکستان میں قومی زبان کا درجہ دیا گیا، مگر اسے نافذ کرنے میں پاکستان کے حکمران طبقے مخلص نہیں ہیں۔[11]
آسان اردو کی وکالت
ترمیمرسل کے مطابق آسان اردو کا رائج ہونا ہی اہل زبان کو اپنی ثقافت سے جوڑکر رکھ سکتا ہے اور اس کے لیے نئی اصطلاحات کے فارسی اور عربی متبادل تلاش کرنے کی بجائے انگریزی الفاظ قبول کرنا چاہیے۔ وہ زبان کے مزاج کے مبالغوں (مثلاً زیور طبع سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آئی) کی جگہ سادہ کلام (چھپی) کا استعمال چاہتے تھے۔[12]
انتقال
ترمیم14 ستمبر 2008ء کو رالف رسل کا انتقال ہو گیا۔ وہ مثانے کے کینسر سے پریشان تھے۔[13]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 35۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 36۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 36-37۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 37۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ^ ا ب پ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 38۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 39۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 39-40۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 40-41۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 41۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 42۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑
رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 42-43۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 43۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت) - ↑ رؤف خیر (2012)۔ حق گوئی و بے باکی (ہارڈ بائنڈ) (تنقیدی مضامین)۔ دہلی: Educational Publishing House۔ صفحہ: 35۔ ISBN 978-93-5073-082-9 الوسيط
|pages=
و|page=
تكرر أكثر من مرة (معاونت)