رام دیو پیر (ہندی: रामदेव पीर‎) یا بابا رام دیو (ہندی: बाबा रामदेव‎) (یا رام دیو جی, رام دیو پیر,[1] رام شاہ پیر[2]) (1352- 1385 عیسوی) (وکرم سمونت 1409-1442) بھارتی ریاست راجستھان کے ایک لوک دیوتا ہیں۔ وہ چودہویں صدی کے ایک حکمران تھے، کہا جاتا یے کہ ان کے پاس معجزانہ طاقتیں تھیں جن سے وہ معاشرے کے مظلوم و غریب لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آج بھارت کے بہت سے لوگ ان کو اپنا اشٹ دیو مان کر پوجتے تھے۔[3][4]

رام دیو جی
رانجا کے حکمران
رام دیورہ کے مندر میں لگی رام دیو جی پیر کی تصویر
رانجا کے حکمران
مارواڑ
پیشرواجمل
شریک حیاتنیتلدے
خاندانتومر ونشی راجپوت
والداجمل جی
والدہمنال دیوی
پیدائشچیتر سُدی پنچمی وکرم سموت 1409
اُنڈو-کاشمیر (باڑمیر)
وفاتوکرم سموت 1442
رام دیورہ
تدفینرام دیورہ
مذہبہندو

پس منظر

ترمیم

رام دیو کو وشنو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ اجمل نے چھاہن بارو گاؤں کے پامجی کی بیٹی ملکہ منال دیوی سے شادی کی۔ شادی کے بعد بدقسمی سے انھیں کوئی اولاد نہیں ہوئی تو بے اولاد بادشاہ نے بھگوان وشنو نے اولاد مانگی۔ جس کے نتیجے میں ان کے دو بیٹے ہوئے، بڑا ”ویرام دیو“ اور چھوٹا بیٹا ”رام دیو“۔ رام دیو کی پیدائش وکرم سمونت تقویم کے بھادرپد شُکل دوج کے دن 1409 میں ضلع باڑمیر کے رامدیریہ، اُنڈو-کاشمیر میں ہوئی۔ رام دیو جی ایک تومر تھے۔[5]

مسلمان رام دیو کو ”رام شاہ پیر“ کہہ کر پکارتے ہیں اور انھیں اللہ کا ولی مانتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس معجزانہ طاقتیں تھیں اور ان کی شہرت کی چرچے بہت دور دور تک تھے۔ ان کے متعلق ایک مشہور روایت ہے کہ مکہ سے پانچ پیر رام دیو کی طاقتوں کا امتحان لینے آئے تھے۔ رام دیو نے پہلے ان کو خوش آمدید کہا اور پھر ان کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دی۔ لیکن پیروں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اپنے ذاتی برتنوں میں کھائیں گے جو مکہ میں پڑے ہیں۔ اس پر رام دیو مسکرائے کہا کہ دیکھو آپ لوگوں کے برتن آ رہے ہیں اور ان پیروں نے دیکھا کہ ان کے برتن ہوا میں اڑتے ہوئے مکہ سے آ رہے تھے۔ جب وہ پیر ان کی قابلیت اور طاقتوں کے قائل ہو گئے تو انھوں نے ان کا احترام کیا اور ان کو رام شاہ پیر کا نام دیا۔[2][6][7][8] جو پانچ پیر ان کی طاقتوں کا امتحان لینے آئے تھے وہ ان کی طاقتوں سے بہت متاثر ہوئے اور انھوں نے ان کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور ان پانچوں کی سمادھی بھی رام دیو کی سمادھی کے قریب ہے۔[6]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Malika Mohammada (1 جنوری 2007)۔ The foundations of the composite culture in India۔ Aakar Books۔ ص 348۔ ISBN:978-81-89833-18-3۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-15
  2. ^ ا ب A call to honour: in service of emergent India by Jaswant Singh۔ Rupa & Co۔ 2006۔ ص 23
  3. History goes that five Pirs from Mecca came to test his miraculous powers and after being convinced, paid their homage to him. Since then he is venerated by Muslims as Ramshahpir or Ramapir. آرکائیو شدہ 5 دسمبر 2010 بذریعہ وے بیک مشین
  4. Parcha of Ramdevpir Why do Muslims call Ramdevji "Ramshahpir" or "Ramapir"? The Pirs and Fakirs intentions were to bring disgrace upon Ramdevji, instead they blessed him and Musapir announced that Ramdevji from now on will be known as Ramshahpir, Ramapir or Hindawapir in the whole world and all the Pirs and Fakirs present hailed to Ramdevji "Jai Ramapir, Jai Ramapir". آرکائیو شدہ 5 دسمبر 2010 بذریعہ وے بیک مشین
  5. Bhagvan Ramdevji Maharaj was a Tunwar regarded by Hindus as the incarnation of Lord Krishna. آرکائیو شدہ 5 دسمبر 2010 بذریعہ وے بیک مشین
  6. ^ ا ب India today, Volume 18, Issues 1-12۔ Living Media India Pvt. Ltd۔ 1993۔ ص 61
  7. Hinduism: New Essays in the History of Religions By Bardwell L. Smith۔ 1976۔ ص 138–139
  8. Gujarat Unknown: Hindu-Muslim Syncretism and Humanistic Forays By J. J. Roy Burman۔ 2004۔ ص 114–115

بیرونی روابط

ترمیم