رولٹ کمیٹی (انگریزی: Rowlatt Committee) برطانوی ہندی حکومت کی نافذ کی گئی ایک بدنام کمیٹی تھی جس کے صدر جسٹس رولٹ تھے۔ اس کا نفاذ 1917ء میں ہوا تھا۔

پس منظر ترمیم

اس کمیٹی کے نفاذ کا مقصد بالعموم پورے ہندوستان اور بالخصوص پنجاب اور بنگال میں سیاسی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے، اس کے اثرات کا جائزہ لینے اور جرمنی اور روس کی بالشویک پارٹی سے اس کے تعلقات کی تشخیص کرنا تھا۔ [1][2][3][4] اس کا قیام پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوا تھا جب ہندوستان میں انقلابی تحریکیں زور پکڑنے لگی تھیں اور ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی ملنے لگی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تحریکوں کو جرمن سلطنت سے بہت زیادہ تائید مل رہی تھی جس کا مقصد برطانوی راج کا ختم کرنا تھا۔ [2][3][5] جرمن سلطنت کی اس تائید میں جرمنی اور امریکا میں موجود ہندوستانی تنظیموں اور غدر پارٹی کی مالی امداد کرنا اور پڑوسی افغانستان میں سیاسی حالات کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ اسی سلسلے میں برطانوی ہند کے خلاف افغانستان کے امیر کی جانب ڈپلومیٹک وفود بھیجے گئے تھے۔ افغانستان میں مستحکم عارضی حکومت ہند نے بھی بالیشوک پارٹی سے تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ رولٹ کمیٹی کا نافذ کرنے کی ایک اور وجہ ہندوستان میں خانہ جنگی اور مزدوروں کی بے امنی بھی تھی جس میں ممبئی مل کے مزدوروں کا احتجاج ، پنجاب میں کشیدگی کا ماحول اور 1918ء فلو پینڈیمک (جس میں 13 ملین ہندوستانی جاں بحق ہوئے تھے) شامل ہیں۔[6]

کمیٹی کے سامنے جرمنی کے روابط پیش کیے گئے حالانکہ اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی بالشوک پارٹی سے کوئی خطرہ نظر آیا۔ کمیٹی کی سفارش پر رولٹ ایکٹ بنایا گیا جو دفاع ہندوستان ایکٹ 1915ء کی ہی توسیع تھی اور یہ ایکٹ پنجاب اور بنگال کے خطرات کے مدنظر نافذ کی گئی تھی۔ [1]

اس کمیٹی کی سفارش پر نے کو رولٹ ایکٹ کو نافذ کیا گیا اور کمیٹی کے صدر سر سڈنی رولٹ کے نام پر اس ایکٹ کا نام رکھا گیا۔ اس ایکٹ کی بنا پر حکومت کسی کو بھی دہشت گردی کے جرم میں گرفتار کرسکتی تھی اور بنا عدالتی مداخلت کے دو سال تک جیل میں رکھ سکتی تھی۔ اس ایکٹ نے ان معاملات کا پورا اختیار امپیریال اتھارٹی کو دے دیا۔

اس ایکٹ کے بعد میڈیا پربھی حکومت کا دباو بڑھ گیا، بغیر وارنٹ کے گرفتاری اور مقدمے کے بغیر غیر معینہ مدت تک حراست کا اختیار حکومت کو مل گیا۔ یہاں تک کہ ملزم کو وجہ جاننے کا بھی حق نہیں تھا۔ گرفتار شدہ لوگوں کو رہا ہونے پر سیکیورٹی جمع کروانی پڑتی تھی اور ان کو کسی بھی طرح کی سیاسی، تعلیمی اور مذہبی سرگرمی میں حصہ لینا منع تھا۔ فروری 1919ء کو کمیٹی کے صدر جسٹس رولٹ کی صدارت میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں دو بل متعارف کروائے گئے۔ جن کو کالا قانون کہا گیا۔ ان قوانین نے پولس کو بہت سارے اختیارات دے دیے جن کی رو سے پولس کسی بھی جگہ کی تلاشی لے سکتی تھی اور بغیر وارنٹ کے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی تھی اور اس حالت میں کوئی دلیل، اپیل، وکیل کام نہیں آتے تھے۔ سخت اختلافات کے باوجود یہ قانون مارچ 1919ء کو نافذ کر دیا گیا۔ اس قانون کا مقصد قومی اور نیشنلسٹ رجحان کو روکنا تھا۔

موہن داس گاندھی دیگر رہنماؤں کے ساتھ اس قانون کے خلاف چراغ پا تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جرائم کے لیے ہر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس ایکٹ نے کئی لیڈران اور عوام کو مشتعل کر دیا جس کے بعد حکومت کو جابرانہ اقدامات کرنے پڑے۔ گاندھی اور دیگر لوگوں کو لگا کہ اس ایکٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی بے سود ہے لہذا انھوں نے 6 اپریل کو ہڑتال کا اعلان کر دیا جس کی رو سے یہ اپیل کی گئی کہ ہر ہندوستانی اپنا سارا کام چھوڑ کر اس کالے قانون کے خلاف بھوک ہڑتال کرے، دعائیں کرے اور عوامی جلسے منعقد کرے اور سرکاری نافرمانی کرے۔ اس انعقاد کو تحریک عدم تعاون کا نام دیا گیا۔ اسی ایکٹ نے تحریک آزادی ہند کو مزید ہوا دی اور اگلے 20 برسوں تک یہ تحریک اپنے شباب پر رہی۔ یہ ایکٹ مارچ 1919ء کو نافذ کیا گیا۔ پنجاب میں جم کر ہو ہلہ ہوا اور اس کی مخالفت ہوئی۔ 10 اپریل کو کانگریس کے دو رہنما ، ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کو خفیہ طور پر گرفتار کر کے دھرم شالہ بھیج دیا گہا۔ پنجاب میں فوج کو تعینات کر دیا گیا۔ آس پاس کے گاؤں سے لوگ 13 اپریل کو یوم بیساکھی کی تقریبات اور اس ایکٹ کے خلاف احتجاج کے لیے امرتسر میں جمع ہوئے جس کے بعد جلیانوالہ باغ قتل عام کا ناقابل تصور اور دلخراش واقعہ پیش آیا۔ [7][8] ریجینالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر نے جلیانوالہ باغ کا صدر دروازہ بند کروادیا اور اپنے فوجیوں کو نہتے 5000 مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دے دیا۔ کل 1650 راؤنڈ گولی باری ہوئی جس میں 379 لوگ مارے گئے ( برطانوی کمیشن۔ ہندوستانی اعداد و شمار کے مطابق 1500 لوگ شہید ہوئے تھے)۔ [9]) اور 1137 افراد زخمی ہوئے تھے۔

کمیٹی کے ارکان ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب Tinker 1968, p. 92
  2. ^ ا ب Lovett 1920, pp. 94, 187–191
  3. ^ ا ب Sarkar 1921, p. 137
  4. Leonard A. Gordon (فروری 1968)۔ "Portrait of a Bengal Revolutionary"۔ The Journal of Asian Studies۔ 27 (2): 197–216۔ JSTOR 2051747۔ doi:10.2307/2051747 
  5. Colett 2007, p. 218
  6. Chandler 2001, p. 179
  7. "From the Land of Paradise to the Holy City"۔ The Tribune۔ جنوری 26, 2006۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اکتوبر 2018 
  8. "Op-ed: Let's not forget Jallianwala Bagh"۔ Daily Times۔ اپریل 13, 2003۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اکتوبر 2018 
  9. Ackerman, Peter, and Duvall, Jack, A Force More Powerful: A Century of Nonviolent Conflict p. 74.