رکھما بائی راوت بھارت کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں۔ بچپن ہی میں جب ان کی عمر دو سال تھی ان کے والد جناردھن باندو راجن کی وفات ہو گئی، شوہر کی وفات کے بعد ان کی والدہ نے ممبئی کے ایک سماجی کارکن اور سرجن سخارام ارجن سے شادی کر لی۔ ان کے خاندان میں دوسری شادی کی اجازت تھی۔

رکھما بائی
(ہندی میں: रुक्माबाई ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 22 نومبر 1864ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 25 ستمبر 1955ء (91 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ممبئی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ لندن   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ طبیبہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جب وہ صرف گیارہ سال کی تھی ان کی شادی دادا بھکجی سے ہو گئی، تاہم وہ اپنی بیوہ والدہ جینتی بائی کے گھر رہتی تھیں، جو اپنے دوسرے شوہر سخارام ارجن کے ساتھ تھی۔ جب دادا اور اس کے اہل خانہ نے رکھما بائی کو گھر لے جانے پر زور دیا تو انھوں نے انکار کر دیا اور ان کے سوتیلے والد نے اس فیصلے کی حمایت کی۔ اس کے نتیجے میں 1884ء سے عدالتی مقدمات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں بچوں کی شادی اور خواتین کے حقوق پر ایک بڑی عوامی بحث ہوئی۔ رکھما بائی نے اس دوران اپنی تعلیم جاری رکھی۔ اس معاملے میں انھیں بہت سارے لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی اور جب انھوں نے اپنی طب کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو لندن کے اسکول آف میڈیسن میں بھیجنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک فنڈ تیار کیا گیا۔ وہاں انھوں نے 1895ء میں گریجویشن مکمل کیا اور بھارت واپس آ گئی۔ بھارت کی پہلی خاتون ڈاکٹروں میں سے ایک بن گئیں اور انھوں نے سورت کے خواتین اسپتال میں اپنی خدمات انجام دی۔

ابتدائی زندگی

ترمیم

رکھما بائی نجارت سے وابستہ ایک متوسط گھرانہ میں جناردھن بھاندو راجن اور جینتی بائی کے ہاں پیدا ہوئی، دو سال عمر ہوئی تو ان کے والد جناردھن کی موت ہو گئی۔ والدہ جینتی بائی نے ساری جائداد رکھما بائی کے نام کر دی۔ جینتی بائی نے ایک ڈاکٹر سخارام ارجن سے شادی کر لی۔ جب وہ گیارہ سال کی ہوئی تو ان کی ماں نے اپنی بیٹی کا نکاح دادا بھکاجی سے کر دیا۔ لیکن رکھما بائی والدہ کے ساتھ انھیں کے گھر میں رہتی تھی اور فری چرچ مشن لائبریری کی کتابیں استعمال کر کے گھر میں تعلیم حاصل کرتی تھی۔ ایک سال بعد جب رکھما بائی بارہ سال کی ہوئی تو دادا (ان کے شوہر) کے اہل خانہ سسرال لے جانے پر بضد ہو گئے، لیکن رکھما بائی نے دادا کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور سخارام ارجن نے ان کے فیصلے کی حمایت کی اور پورا ساتھ دیا۔[1] مارچ 1884 میں داداجی نے اپنے وکیلوں کے توسط سے ایک عدالتی نوٹس بھیجا، جس میں سخارام ارجن پر رکھما بائی کو روکنے اور منع کرنے کا الزام بھی تھا۔ سخارام ارجن نے سماجی خطوط کے ذریعہ جواب دیا کہ وہ اسے روک نہیں رہے ہیں، لیکن جلد ہی وہ بھی قانونی امداد لینے پر مجبور ہو گئے۔ وکلا کے توسط سے رکھما بائی نے دادا کے ساتھ رہنے سے انکار کرنے کی وجوہات پر مبنی خط لکھا۔ دادا کا دعوی تھا کہ رکھما بائی کو اس لیے منع کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے والد کی املاک کی مالک ہیں۔[2]

عدالتی چارہ جوئی

ترمیم

بالآخر سنہ 1885 میں "ازدواجی حقوق کی بحالی" کے مطالبہ پر عدالتی چارہ جوئی کا آغاز ہوا اور اس مقدمہ کو جسٹس جج رابرٹ ہل پنہے نے منظور کیا۔ پنہے نے واضح کیا کہ انگریزی مثالوں کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا کیوں کہ انگریزی قانون کا اطلاق بالغوں پر ہوتا ہے۔ انھوں نے فیصلہ سنایا کہ: "رکھما بائی کی شادی اس کے "بے بس بچپن" میں ہوئی ہے اور وہ کسی جوان عورت کو زبردستی مجبور نہیں کرسکتے ہیں۔" پِنہے اس آخری معاملے کی سماعت بعد ریٹائر ہو گئے۔ پھر 1886ء میں یہ کیس ٹرائل کے لیے سامنے آیا۔ رکھما بائی کے وکلا میں جے ڈی انورٹی جونیئر اور تلنگ شامل تھے، کچھ ہندو مذہبی لوگوں کادعوی تھا کہ جسٹس پنہے کے ذریعہ سنایا گیا موجودہ فیصلہ ہندو حدود کے تقدس کا احترام نہیں کرتا ہے، پنہے کے فیصلے پر کڑی تنقید ایک ہفتہ واری مقامی مراٹھی اخبار میں وشوناتھ نارائن منڈلک (1833–89) کے ذریعہ شائع ہوئی جس میں دادا جی کی حمایت تھی، اس میں لکھا تھا کہ پنہے ہندو قوانین کی روح کو نہیں سمجھتے اور "متشدد طریقوں" سے اصلاح چاہتے ہیں۔ دریں اثنا ، ٹائمس آف انڈیا میں ایک ہندو خاتون کے کالمی نام کے تحت مضامین کا ایک سلسلہ اس معاملے کے دوران (اور اس سے پہلے) "عوامی رد عمل کا اظہار" شائع ہونے لگا، بعد میں انکشاف ہوا کہ کالم نگار کوئی اور نہیں بلکہ رکھما بائی ہی تھی۔ بہت حال رکھما بائی نے پوری جرأت اور بہادری سے لکھا کہ وہ اس فیصلے پر عمل نہیں کر سکتی، اس کی بجائے زیادہ سے زیادہ جرمانہ ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، اس سے مزید ہنگامہ آرائی اور بحث و مباحثہ ہوا۔ بالگنگادھر تلک نے کیسری میں لکھا کہ رکھما بائی کی نافرمانی، انگریزی تعلیم کا نتیجہ تھی اور اس نے اعلان کیا کہ ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔[3]

بالآخر کئی مقدمات اور فیصلے کے بعد رکھما بائی نے ملکہ وکٹوریہ کو ایک خط لکھا، پھر ملکہ نے اپنے اختیارات کا استعمال کر کے عدالت کو برخاست کرنے اور شادی کو تحلیل کرنے کا فرمان جاری کیا۔ جولائی 1888ء میں داداجی کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا اور دادا نے دو ہزار روپے کی ادائیگی کی شرط پر رکھما بائی پر اپنا دعوی چھوڑ دیا۔ تاہم رکھما بائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ روانہ ہو گئی۔ اس معاملے نے بہرامجی مالاباری (1853–1912) جیسے اصلاح پسندوں کو بہت متاثر کیا جنھوں نے اس موضوع پر بڑے پیمانے پر لکھا تھا۔ خواتین کے رسائل و اخبار میں حقوق نسواں کے مباحثے خوب ہونے لگے، ساتھ ساتھ اس کو برطانیہ میں بڑی دلچسپی کے ساتھ اٹھایا جا رہا تھا۔ اس مقدمے کی وجہ سے ایج کانسنٹ ایکٹ 1891ء کی منظوری میں مدد ملی، جس کے تحت بچوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔[3][4][1]


خدمات

ترمیم

ممبئی کے مشہور "کیم ہاسپٹل" کے ڈاکٹر اڈتھ پیچے نے رکھما بائی کی خوب حوصلہ افزائی کی، انھوں نے ہی ان کی تعلیم کے لیے فنڈ جمع کرنے میں مدد کی۔ رکھما بائی 1889ء میں "اسکول آف میڈیسن برائے خواتین" لندن میں تعلیم حاصل کرنے انگلینڈ چلی گئیں۔ رکھما بائی کو بھارت میں خواتین کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے بہت سے دوسرے لوگوں نے فنڈ قائم کرنے میں مدد کی۔ شراکت کرنے والوں میں شیوجی راؤ ہولکر بھی شامل تھے۔ رکھما بائی پھر اپنے آخری امتحان کے لیے گئیں پھر 1894ء میں سورت کے ایک اسپتال میں داخل ہونے کے لیے ہندوستان واپس آئیں۔ 1904ء میں بھکاجی کا انتقال ہو گیا اور رکھمابائی نے ہندو روایت کے مطابق بیوہ خواتین کی سفید ساڑیاں پہنیں۔ راجکوٹ میں خواتین کے سرکاری اسپتال میں خدمات انجام دی۔ 1929 یا 1930 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے ممبئی میں پینتیس سال چیف میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انھوں نے اصلاحات عام کرنے اور غلط روایات کو ختم کرنے کی تحریک کو جاری رکھا۔[5]

مقبولیت

ترمیم

بھارت کی پہلی خاتون طبیب ہونے، حقوق نسواں اور نابالغوں کی شادی جیسی سماجی اصلاحات پر آواز اٹھانے کی وجہ سے ملک اور بیرون بہت شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ رکھما بائی کی کہانی کو ناولوں اور فلموں میں شامل کیا گیا۔

22 نومبر 2017 کو گوگل نے رکھما بائی کو ان کے 153 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے بھارتی فرنٹ پیج پر گوگل ڈوڈل بنا کر اعزاز دیا۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Chandra, Sudhir (2008)۔ "Rukhmabai and Her Case"۔ $1 میں Chandra, Sudhir۔ Enslaved Daughters۔ Oxford University Press۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780195695731.003.0001 
  2. ^ ا ب Sudhir Chandra (2008)۔ Enslaved Daughters: Colonialism, Law and Women's Rights (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-569573-1۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780195695731.001.0001۔ 14 اپریل 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. Antoinette Burton (1998-03-30)۔ At the Heart of the Empire: Indians and the Colonial Encounter in Late-Victorian Britain (بزبان انگریزی)۔ University of California Press۔ ISBN 978-0-520-91945-7۔ 06 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. Helen Rappaport (2001)۔ Encyclopedia of Women Social Reformers (بزبان انگریزی)۔ ABC-CLIO۔ صفحہ: 599۔ ISBN 9781576071014۔ 01 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  5. Rukhmabai Raut’s 153rd Birthday - گوگل - 22 نومبر 2017