ملکہ وکٹوریہ
وکٹوریہ کے دیگر استعمالات کے لیے دیکھیے وکٹوریہ (ضد ابہام)
صاحب جلال | ||||
---|---|---|---|---|
| ||||
(انگریزی میں: Victoria)،(انگریزی میں: Alexandrina Victoria) | ||||
وزرائے اعظم | دیکھیے فہرست | |||
وائسرائے | دیکھیے فہرست | |||
معلومات شخصیت | ||||
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Princess Alexandrina Victoria of Kent) | |||
پیدائش | 24 مئی 1819ء [1][2][3][4][5][6][7] کنسنگٹن محل [8][9][10] |
|||
وفات | 22 جنوری 1901ء (82 سال)[1][2][3][4][5][6][7] | |||
وجہ وفات | دماغی جریان خون | |||
طرز وفات | طبعی موت | |||
رہائش | کنسنگٹن محل بکنگھم محل قلعہ ونڈسر |
|||
شہریت | متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ | |||
قد | 142.24 سنٹی میٹر [11] | |||
رکنیت | رائل سوسائٹی | |||
عارضہ | انس الدم | |||
شریک حیات | شہزادہ البرٹ کونسرٹ | |||
اولاد | ایڈورڈ ہشتم [12] | |||
خاندان | خاندان ہانوور | |||
نسل |
|
|||
دیگر معلومات | ||||
پیشہ | شاہی حکمران ، مصور [13]، مصنفہ [14]، روزنامچہ نگار [15]، آپ بیتی نگار ، ارستقراطی | |||
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی ، جرمن ، فرانسیسی ، اطالوی ، لاطینی زبان ، اردو [16] | |||
اعزازات | ||||
تمغا البرٹ (1887)[17] آرڈر آف چالس سوم آرڈر آف گارٹر گرینڈ کراس آف دی لیگون آف ہانر رائل وکٹورین آرڈر آرڈر آف میرٹ آرڈر آف دی اسٹار آف انڈیا آرڈر آف تھیسلے آرڈر آف سینٹ پیٹرک آرڈر آف سولومن آرڈر آف دا بلیک ایگل آرڈر آف سینٹ مائیکل اور سینٹ جارج آرڈر آف پرنس ڈانیلو I آرڈر آف دی باتھ آرڈر آف کوئین ماریہ لیوسہ آرڈر آف سینٹ کیتھرین |
||||
دستخط | ||||
IMDB پر صفحہ | ||||
درستی - ترمیم |
ملکہ وکٹوریہ (پیدائش: 24 مئی 1819ء– وفات: 22 جنوری 1901ء) سلطنت برطانیہ کی ملکہ تھی۔ ملکہ وکٹوریہ انیسویں صدی عیسوی میں دنیا کی با اثر ترین حکمرانوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ ملکہ وکٹوریہ کا شمار برطانیہ کی تاریخ میں انتہائی با اثر حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ 1858ء میں اسی کے دور حکومت میں ایسٹ انڈيا کمپنی کے 120 سالہ تسلط کو ختم کر کے ہندوستان کو باضابطہ طورایک برطانوی کالونی بنادیا گيا۔ 1876ء میں ملکہ وکٹوریہ قیصرِ ہند بن گئیں۔ ملکہ وکٹوریہ نے تقریباً 64 سال حکومت کی۔ ملکہ وکٹوریہ کے دور میں سلطنت برطانیہ اپنی طاقت اور عالمی اثر و رسوخ میں اپنی انتہا پر تھی اور یہ دور بہت تبدیلیوں کا دور تھا۔ ملکہ وکٹوریہ 22 جنوری 1901ء کو اِنتقال کرگئیں۔ اُن کے انتقال کے بعد ایڈورڈ ہفتم تخت نشین ہوا۔ ملکہ وکٹوریہ 22 جنوری 1901ء سے 9 ستمبر 2015ء تک مملکت متحدہ کی طویل ترین عہدِ حکومت والی حکمران کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ رہیں، بعد ازاں 9 ستمبر 2015ء کو یہ ریکارڈ ملکہ ایلزبتھ دوم کو حاصل ہو گیا۔[18][19][20][21]
وکٹوریہ کی پیدائش سے قبل کا انگلستان
ترمیم25 اکتوبر 1760ء کو جارج سوم شاہِ انگلستان بن گئے اور اِس وقت مشرق میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے پاؤں مضبوط کر رہی تھی۔ 2 نومبر 1810ء کو شہزادی امیلیا کی جواں عمری میں انتقال کے سبب شاہِ انگلستان جارج سوم غمژدہ رہنے لگے جس سے اُن پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے۔ 1810ء کے اختتام تک جارج سوم ذہنی توازن کھوبیٹھے اور برطانوی پارلیمنٹ نے شاہِ انگلستان کی نگہداشت کے لیے ایک بل منظور کر لیا گیا جس کے مطابق ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ تب تک منتظم حکومت ہوں گے جب تک شاہِ انگلستان جارج سوم زندہ رہیں۔ یہ مدت تقریباً 10 سال تک رہی۔ جارج سوم نے 29 جنوری 1820ء کو حالتِ دیوانگی میں انتقال کیا۔
وکٹوریہ کی پیدائش اور والدین
ترمیم- مزید پرھیں: شہزادہ ایڈورڈ ڈیوک کینٹ و سٹرادرن
- مزید پڑھیں: شہزادی وکٹوریہ سیسکوبرگ سالفیلڈ
- مزید پرھیں: کارل، شہزادی فیوڈرا
وکٹوریہ کے والد شہزادہ ایڈورڈ، ڈیوک کینٹ و سٹرادرن شاہِ انگلستان جارج سوم کے چوتھے بیٹے تھے۔ وہ برطانوی فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ 29 مئی 1818ء کو شہزادہ ایڈورڈ، ڈیوک کینٹ و سٹرادرن نے جرمنی کی بیوہ شہزادی وکٹوریہ سیسکوبرگ سالفیلڈ سے شادی کرلی۔ اِس سے قبل شہزادی وکٹوریہ سیسکوبرگ سالفیلڈ کے سابقہ شوہر سے دو بچے کارل اور شہزادی فیوڈرا تھے۔ کارل کا انتقال 13 نومبر 1856ء کو ہوا اور شہزادی فیوڈرا کا انتقال 23 ستمبر 1872ء کو ہوا۔ شادی کے بعد وکٹوریہ کی والدہ شہزادی وکٹوریہ سیسکوبرگ سالفیلڈ کو ڈچز (Duchess) کا شاہی خطاب دیا گیا۔ اِس جوڑے کے ہاں 24 مئی 1819ء کی صبح 4 بج کر 15 منٹ پر کینزنگٹن محل، لندن میں وکٹوریہ کی پیدائش ہوئی۔[22]
24 جون 1819ء کو کینزنگٹن محل کے ایک نجی کمرے میں ننھی وکٹوریہ کو بپتسمہ دیا گیا اور روس کے الیگزینڈر اول کے نام سے الیگزینڈرینہ اور اُس کی والدہ سے نام وکٹوریہ تجویز کیا گیا۔ اِس طرح وکٹوریہ کا نام الیگزینڈرینہ وکٹوریہ رکھا گیا حالانکہ اِس سے قبل متعدد نام جارجینا، شارلٹ، آگسٹا بھی زیرِ غور تھے مگر یہ تمام نام اُس وقت کے ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ کے احکام سے ہٹا دیے گئے۔[23] 23 جنوری 1820ء کو وکٹوریہ کے والد 52 سال کی عمر میں فوت ہو گئے جبکہ وکٹوریہ ابھی محض 8 ماہ کی ہی تھی۔
حلیہ
ترمیموکٹوریہ میانہ جسم کی حامل تھیں۔ رنگ گورا سپید اور جسم کسی قدر موٹاپے پر مائل تھا۔ قد 1.52 میٹر تھا۔ آنکھیں اُبھری ہوئیں، ماتھا کشادہ ناک ستواں اور دراز تھی۔ بھنوئیں کسی قدر کم تھیں۔ جوانی میں جسم میں فربھی بڑھنے لگی تھی اور غالباً 1861ء کے بعد موٹاپا زیادہ غالب آ گیا۔ چست لباس سے تمام عمر نفرت رہی اور کھلے لباس پسند کرتی تھیں۔ ہاتھوں کی انگلیاں کسی قدر فربہ اور چھوٹی تھیں جن میں ہمہ وقت سونے کی انگوٹھیاں پہنے رہتیں۔ جواہرات اور تاج عموماً شاہی تقاریب اور عوامی تقاریب میں زینت بنے رہتے تھے۔
ابتدائی حالات اور تعلیم
ترمیموکٹوریہ کے والد 23 جنوری 1820ء کو انتقال کر گئے تھے جبکہ ابھی وہ 8 مہینوں کی تھی۔ وکٹوریہ کی عمر کے دو عشرے کینزنگٹن محل میں گذرے جہاں وہ اپنی والدہ کے ساتھ مقیم رہی۔کینزنگٹن محل میں 1830ء کے بعد وکٹوریہ کی حفاظت بھرپور طریقہ سے کی گئی۔ کینزنگٹن محل میں جان کانرائے کا عمل دخل بہت بڑھ چکا تھا اور وکٹوریہ کی والدہ اور جان کانرائے کی ملی بھگت سے وکٹوریہ کی محل میں حفاظت ایک منظم انداز میں کی گئی۔ وکٹوریہ سے ملاقات کرنے والا براہِ راست پہلے وکٹوریہ کی والدہ اور جان کانرائے کو اپنے حال احوال سناتا اور پھر جاکر وہ وکٹوریہ سے ملاقات کرپاتا تھا۔[24]
کینزنگٹن محل میں وکٹوریہ اپنی والدہ کے ہمراہ ایک ہی کمرے میں سوتی تھی، اِسی محل میں وہ مطالعہ کرتی اور نجی اساتذہ کی آمد بھی اِسی محل میں ہوتی جو وکٹوریہ کو تعلیم دیا کرتے۔ تعلیم کی تحصیل کے لیے پابندی وقت بہت ضروری خیال کی جاتی تھی جس پر وکٹوریہ پورا اُترتی تھی۔ اکثر وہ گڑیاؤں سے کھیلتی تھی۔[25] اساتذہ سے فرانسیسی زبان، جرمن زبان، اطالوی زبان اور لاطینی زبان سیکھی مگر وہ گھریلو طور پر انگریزی زبان بولتی تھی۔[26]
مصوری
ترمیم- مزید دیکھیے: ملکہ وکٹوریہ کا روزنامچہ (ڈائری)
کینزنگٹن محل میں قیام کے دوران میں ہی وکٹوریہ نے مصوری بھی سیکھی۔ مصوری سے اُس کا لگاؤ آخری دم تک قائم رہا۔ اُس کے روزنامچہ ڈائری میں جا بجاء تصویری خاکے بھی ملتے ہیں جس کی وہ خود عینی شاہد ہوتی تھی۔ 1833ء میں اپنا ذاتی خاکہ بھی بنایا جو روزنامچہ وکٹوریہ میں موجود ہے۔
تخت کے جانشینوں کی فہرست
ترمیم- مزید پڑھیں: جارج سوم، شہزادی شارلٹ ویلز، شہزادی شارلٹ ویلز، جارج چہارم، مملکت متحدہ، شہزادہ فریڈرک ڈیوک یارک البانے، ولیم چہارم، مملکت متحدہ
1819ء میں جب وکٹوریہ کی پیدائش ہوئی تو وہ اُس وقت تخت کے دعویداروں میں پانچوں شمار پر تھی۔1817ء تک شہزادی شارلٹ ویلز ہی شاہِ انگلستان کی قانونی و جائز وارث تھی۔ 6 نومبر 1817ء کو شہزادی شارلٹ ویلز 21 سال کی عمر میں فوت ہو گئی تو شاہی خاندان کے لیے قانونی و جائز وارث کی تلاش ممکن ہوئی۔ پہلے شمار پر خود شاہِ انگلستان جارج سوم، دوسرے شمار پر ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ، تیسرے شمار پر شہزادہ فریڈرک ڈیوک یارک البانے، چوتھے شمار پر ولیم چہارم، مملکت متحدہ اور پانچویں شمار پر وکٹوریہ کے والد ایڈورڈ ڈیوک کینٹ و سٹرادرن تھے۔
ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ کی کوئی اولاد نہ تھی، علاوہ ازیں شاہِ انگلستان جارج سوم کی دیوانگی کے بعد جارج چہارم، مملکت متحدہ بطور ولی عہد ہی انتظامِ حکومت سنبھالے ہوئے تھا۔ اِس کے علاوہ یارک کے ڈیوک ولیم چہارم، مملکت متحدہ کی دو بیٹیاں کم عمری میں ہی فوت ہو گئی تھیں (شہزادی شارلٹ کلارینس جو 27 مارچ 1819ء کو پیدائش کے روز ہی فوت ہو گئی اور شہزادی ایلزبتھ کلارینس جو 10 دسمبر 1820ء کو پیدا ہوئی اور 4 مارچ 1821ء کو 2 ماہ 25 دن کی عمر میں فوت ہو گئی) اور ولیم چہارم، مملکت متحدہ کی کوئی ناجائز اولاد تختِ شاہی کی وارث نہیں بن سکتی تھی۔ وکٹوریہ کے والد شہزادہ ایڈورڈ ڈیوک کینٹ و سٹرادرن اور شہزادہ فریڈرک ڈیوک یارک البانے نے 1818ء میں شادیاں کیں۔ 1819ء میں وکٹوریہ پیدا ہوئی لیکن شہزادہ فریڈرک ڈیوک یارک البانے کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ وکٹوریہ کے والد شہزادہ ایڈورڈ ڈیوک کینٹ و سٹرادرن 23 جنوری 1820ء کو 52 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور شاہِ انگلستان جارج سوم 29 جنوری 1820ء کو حالتِ دیوانگی میں فوت ہوئے۔ 5 جنوری 1827ء کو شہزادہ فریڈرک ڈیوک یارک البانے بھی 63 سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ 1827ء تک تخت شاہی کے دعویداروں میں اب صرف تین دعویدار باقی رہ گئے تھے۔ پہلے شمار پر ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ، دوسرے شمار پر ولیم چہارم، مملکت متحدہ اور خود وکٹوریہ۔ 29 جنوری 1820ء کو شاہِ انگلستان جارج سوم کے انتقال کے بعد ولی عہد جارج چہارم، مملکت متحدہ برسراِقتدار آیا تو وکٹوریہ کی رسائی تخت شاہی تک تیسرے شمار پر رہ گئی تھی۔ 26 جون 1830ء کو شاہِ انگلستان جارج چہارم، مملکت متحدہ نے 67 سال کی عمر میں انتقال کیا تو اُن کے چھوٹے بھائی ولیم چہارم، مملکت متحدہ 26 جون 1830ء کو شاہِ انگلستان بن گئے، اب وکٹوریہ دوسرے شمار پر آگئی۔
جانشینی تک سفر
ترمیم23 دسمبر 1830ء کو شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ کے ابتدائی عہد میں ایک نیا قانون وضع کر لیا گیا جو قانون نائب السلطنت 1830ء کہلاتا ہے۔ اِس قانون کے تحت شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ کے بعد قانونی و جائز وارث صرف 18 سال کی عمر تک ہونے میں تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ علاوہ ازیں اِس قانون کے تحت ولیم چہارم، مملکت متحدہ کے انتقال کے بعد اگر قانونی و جائز وارث 18 سال کا ہوگا تو ہی تخت نشیں ہو سکے گا وگرنہ اُس کی والدہ منتظم حکومت یا نائب السلطنت کا عہدہ اپنے پاس رکھے گی۔ اِس قانون کے تحت وکٹوریہ ولیم چہارم، مملکت متحدہ کے بعد قانونی و جائز وارث قرار دے دی گئی۔ قانون نائب السلطنت 1830ء کو برطانوی پارلیمنٹ نے قبول تو کر لیا مگر اِس کے نفاذ کی ضرورت کبھی میسر نہیں آئی کیونکہ جب ولیم چہارم، مملکت متحدہ نے 20 جون 1837ء کو انتقال کیا تو وکٹوریہ 18 سال کی ہو چکی تھی۔1836ء میں شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ نے اپنی حمایت سے یہ اعلان کر دیا کہ اگر وہ وکٹوریہ کی اٹھارہویں سالگرہ تک زندہ رہا تو قانون نائب السلطنت 1830ء خود بخود ختم ہو جائے گا اور میرے بعد وکٹوریہ تخت شاہی کی وارث ہوگی۔[27]
قانون نائب السلطنت 1830ء کا اختتام اور شاہِ انگلستان کی وفات
ترمیم24 مئی 1837ء کو وکٹوریہ کی اٹھارہویں سالگرہ منائی گئی اور قانون نائب السلطنت 1830ء ختم ہو گیا کیونکہ وکٹوریہ کی عمر 18 سال ہو چکی تھی۔ اٹھارہویں سالگرہ کے ایک مہینہ بعد 20 جون 1837ء کو شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ 71 سال کی عمر میں فوت ہو گئے اور وکٹوریہ اُن کی جانشین ہوئی۔ وکٹوریہ نے 20 جون 1837ء کے روزنامچہ میں لکھا ہے کہ:
"میں صبح 6 بجے سو کر اُٹھی۔ والدہ نے بتلایا کہ ابھی یہاں لارڈ فرانسس کننگہم اور آرچ بشپ کینٹربری ولیم ہاؤلے موجود ہیں جو تمھارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں بستر سے اُٹھ کر اپنے شب کے لباس میں ہی نشست گاہ والے کمرے میں چلی گئی اور اُن دونوں کو وہاں انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔ لارڈ فرانسس کننگہم نے مجھے اِطلاع دی کہ میرے بزرگ چچا (ولیم چہارم، مملکت متحدہ) شب 2 بج کر 12 منٹ پر انتقال کر گئے اور اب آپ ملکہ ہیں۔" [28][29]
وکٹوریہ کے لیے سرکاری دستاویزات کی تیاری کا حکم دیا گیا، اِن دستاویزات میں وکٹوریہ کا نام الیگزینڈرینہ اُس کی خواہش پر حذف کر دیا گیا اور دوبارہ کبھی مستعمل نہیں ہوا۔[30]
ابتدائی عہدِ حکومت
ترمیم- مزید پڑھیں: بکنگھم محل
- مزید پڑھیں: فہرست ملکہ وکٹوریہ کے وزرائے اعظم
13 جولائی 1837ء کو وکٹوریہ سرکاری طور پر بکنگھم محلمنتقل ہو گئی۔ وکٹوریہ بحیثیتِ ملکہ انگلستان پہلی حکمران تھی جس نے بکنگھم محلمیں رہائش اختیار کی۔[31] 20 جون 1837ء کو لارڈ میلبورن نے بحیثیت وزیراعظم برطانیہ کا حلف اٹھایا اور 30 اگست 1841ء تک وہ اِس عہدہ پر قائم رہا۔ لارڈ میلبورن وکٹوریہ کے وزرائے اعظم میں پہلا تھا جو وکٹوریہ کو دو سال سے زائد تک کے عرصہ میں سیاست کے اسرار و رموز سکھاتا رہا۔ وکٹوریہ اُسے اپنے والد کے مقام پر سمجھتی تھی۔[32] حالانکہ برطانوی عوام سمجھتی تھی کہ نو عمر ملکہ لارڈ میلبورن سے شادی کر لیں گی، حتیٰ کہ عوام اکثر وکٹوریہ کو مسز میلبورن کہا کرتی تھی۔[33]
تخت نشینی
ترمیم- مزید پڑھیں: تخت نشینی ملکہ وکٹوریہ
20 جون 1837ء کو شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ کی وفات کے بعد وکٹوریہ رسمی طور پر ملکہ انگلستان بن چکی تھی مگر باضابطہ طور پر رسمِ تخت نشینی باقی تھی۔جمعرات 28 جون 1838ء کو وکٹوریہ کی باضابطہ رسمِ تخت نشینی ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی۔ 28 جون 1838ء کی صبح بکنگہم محل کے باہر برطانوی عوام کا جم غفیر تھا، تقریباً 4 لاکھ سے زائد افراد بکنگہم محل سے ویسٹ منسٹر ایبے تک کے جانے والے راستوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بس وکٹوریہ کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی کی تقریب اُنیسویں صدی عیسوی کی اہم اور بڑی تقاریب میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی پر خرچ ہونے والی رقم 79,000 پاؤنڈ اسٹرلنگ تھی جو 2015ء کے ایک محتاط تخمینہ کے مطابق 6.41 ملین پاؤنڈ اسٹرلنگ رقم تھی۔ وکٹوریہ کی تخت نشینی کے لیے شاہی بگھی وہی استعمال کی گئی جو اِس سے قبل 1831ء میں شاہِ انگلستان ولیم چہارم، مملکت متحدہ کی تقریبِ تخت نشینی میں استعمال کی گئی تھی۔
ویسٹ منسٹر ایبے میں تخت نشینی کی تقریبِ خاص کی موسیقی انگریزی موسیقار جارج تھامس اسمارٹ نے مرتب کی تھی جس پر 1,500 پاؤنڈ اسٹرلنگ خرچ ہوئے۔ وکٹوریہ کے لیے نیا تاج رنڈیل اینڈ برج نامی کمپنی نے تیار کیا تھا جو شاہی تاج ریاست کہلایا، اِس تاج میں 3,093 بیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، جبکہ تاج کے عین وسط میں ایک سرخ بڑا یاقوت جڑا گیا۔ تاج پر واقع شاہی صلیب پر ہشت پہلو تراشا ہوا سینٹ ایڈورڈ نیلم جڑا گیا۔1859ء میں اِس تاج شاہی کو بعد ازاں وکٹوریہ نے دوبارہ پہنا تاکہ مصور فرانز ژوئیر ونٹرہالٹر تخت نشینی کی تصویر بناسکے۔
مقبولیت میں کمی
ترمیموکٹوریہ اپنے عہدِ تخت نشینی کے اولین دور میں عوام کی بھرپور توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھی[34] کہ اُس کی شہرت و مقبولیت کو 1839ء میں اُس وقت دھچکا لگا جب اُس کی والدہ کی کنیزوں میں سے ایک کنیز لیڈی فلورا ہیسٹنگز ماں بننے کے قابل ہو گئی۔ 33 سالہ لیڈی فلورا ہیسٹنگز محل میں شک و شبہہ کی نظر سے دیکھی جانے لگی، مشہور ہو گیا تھا کہ جان کانرائے کے اِس کنیز کے ساتھ تعلقات ہیں۔[35] افواہوں نے محل میں بازار گرم کر رکھا تھا اور نو عمر وکٹوریہ نے افواہ پر یقین کر لیا۔[36] معاملات طبی معائنہ جات پر ٹھہرے، اولاً لیڈی فلورا پیسٹنگز نے معائنہ کروانے سے انکار کر دیا، لیکن وسط ماہِ فروری 1839ء میں وہ طبی معائنے پر راضی ہو گئی اور طبی معائنہ کے بعد کنواری پائی گئی۔[37] 27 جون 1839ء کو وکٹوریہ لیڈی فلورا ہیسٹنگز کو دیکھنے بھی گئی مگر وہ بہت لاغر اور نڈھال ہو چکی تھی۔[38] 5 جولائی 1839ء کو لیڈی فلورا ہیسٹنگز 33 سال کی عمر میں فوت ہوئی تو جراحی بعد از وفات کی اطلاع کے مطابق اُس کے جگر میں ایک بڑی رسولی اندرونی جانب موجود تھی جو دراصل شکم کے بڑھ جانے کا سبب بنی تھی۔[39] وکٹوریہ کو اِس معاملہ میں دکھ ہوا مگر وکٹوریہ کی مقبولیت میں کمی ہوتی گئی۔
شادی
ترمیمملکہ انگلستان ایلزبتھ اول کے بعد وکٹوریہ پہلی ملکہ تھی جو تخت شاہی پر کنوارگی کی حالت میں برسر اِقتدار آئی تھی۔ 1839ء میں لارڈ میلبورن کے ساتھ خوشگوار تعلقات پر برطانوی عوام سمجھنے لگی تھی کہ عمر رسیدہ لارڈ میلبورن سے ملکہ شادی کر لیں گی مگر یہ خیال خام خیال ہی رہا۔ 10 اکتوبر 1839ء میں وکٹوریہ کا عم زاد شہزادہ البرٹ کونسرٹ ونڈسر محل لندن آیا۔ محض پانچ روز وکٹوریہ کے ساتھ گزارنے پر شہزادہ البرٹ کونسرٹ نے وکٹوریہ کو شادی کے لیے آمادہ کر لیا۔[40] 23 نومبر 1839ء کو خصوصی مجلس شوریٰ برطانیہ نے وکٹوریہ کی شادی کا قانونی و شاہی بل منظور کر لیا۔ 10 فروری 1840ء کو شادی کی یہ تقریب سینٹ جیمز محل میں معنقد ہوئی۔ وکٹوریہ اِس شام بہت مسحور تھی اور اِس تمام کیفیت کو اُس نے 10 فروری 1840ء کے روزنامچہ میں تحریر بھی کیا ہے۔[41] محض پانچ روز میں تخلیق ہونے والا یہ رشتہ آمادگی و خوشگواری آئندہ 21 سال 10 ماہ 4 دن تک مضبوطی سے قائم رہا اور 9 بچوں کی پیدائش ہوئی جو بعد ازاں یورپ کے مختلف شاہی خاندانوں میں بیاہے گئے، اِس طرح وکٹوریہ کو یورپ کی ساس بھی کہا جاتا ہے۔
شہزادہ البرٹ کونسرٹ کی بکنگھم محل آمد کے بعد وکٹوریہ پر سے لارڈ میلبورن کی سرپرستی اُٹھ گئی، اب شہزادہ البرٹ کونسرٹ براہِ راست ریاستی و سیاسی معاملات میں وکٹوریہ کو رائے اور مشورہ دینے لگا۔ لارڈ میلبورن کا عمل دخل سیاسی معاملات سے ختم ہو گیا اور وہ اگست 1841ء میں اپنے عہدہ وزارت سے برخاست ہو گیا۔
قاتلانہ حملہ
ترمیم1840ء سے 1882ء تک وکٹوریہ پر 7 قاتلانہ حملے ہوئے جن میں ملکہ بالکل محفوظ رہیں۔
ہندوستان میں جنگ آزادی 1857ء
ترمیم- مزید پڑھیں: ہندوستان میں 1857ء
- مزید پڑھیں: جنگ آزادی ہند 1857ء
اعلان وکٹوریہ
ترمیم- مزید پڑھیں: ہندوستان میں 1858ء
شہزادہ البرٹ کونسرٹ کی وفات
ترمیم- مزید دیکھیے: شہزادہ البرٹ کونسرٹ
دسمبر 1861ء میں شہزادہ البرٹ کونسرٹ بیمار ہوئے اور اِس دوران وکٹوریہ مسلسل پاس تیمارداری کرتی رہی۔ 14 دسمبر 1861ء کو شہزادہ البرٹ کونسرٹ نے تپ محرقہ میں انتقال کیا۔ شہزادہ البرٹ کونسرٹ کی وفات کے بعد وکٹوریہ غمگین رہنے لگی اور تین سال تک ملکہ نے عوامی تقریبات میں شرکت نہیں کی۔
وزرائے اعظم برطانیہ
ترمیم- مزید پڑھیں: فہرست ملکہ وکٹوریہ کے وزرائے اعظم
وکٹوریہ کے 63 سالہ عہدِ حکومت میں 10 برطانوی وزرائے اعظم اِقتدار میں آئے۔ لارڈ میلبورن، رابرٹ پیل، لارڈ ابرڈین اور لارڈ روزبری 1 بار، لارڈ جان رسل 2 بار، لارڈ ڈربی 3 بار، لارڈ پامرسٹن، بینجمن ڈزرائیلی 2 بار، لارڈ سالسبری 3 بار، ولیم ایورٹ گلیڈسٹون 4 بار اِقتدار میں آئے۔
- لارڈ میلبورن– 18 اپریل 1835ء تا 30 اگست 1841ء
- رابرٹ پیل– 30 اگست 1841ء تا 29 جون 1846ء
- لارڈ جان رسل– 30 جون 1846ء تا 21 فروری 1852ء
- لارڈ ڈربی– 23 فروری 1852ء تا 17 دسمبر 1852ء
- لارڈ ابرڈین– 19 دسمبر 1852ء تا 30 جنوری 1855ء
- لارڈ پامرسٹن– 6 فروری 1855ء تا 19 فروری 1858ء
- لارڈ ڈربی– 20 فروری 1858ء تا 11 جون 1859ء
- لارڈ پامرسٹن– 12 جون 1859ء تا 18 اکتوبر 1865ء
- لارڈ جان رسل– 29 اکتوبر 1865ء تا 26 جون 1866ء
- لارڈ ڈربی– 28 جون 1866ء تا 25 فروری 1868ء
- بینجمن ڈزرائیلی– 27 فروری 1868ء تا یکم دسمبر 1868ء
- ولیم ایورٹ گلیڈسٹون– 3 دسمبر 1868ء تا 17 فروری 1874ء
- بینجمن ڈزرائیلی– 20 فروری 1874ء تا 21 اپریل 1880ء
- ولیم ایورٹ گلیڈسٹون– 23 اپریل 1880ء تا 9 جون 1885ء
- لارڈ سالسبری– 23 جون 1885ء تا 28 جنوری 1886ء
- ولیم ایورٹ گلیڈسٹون– یکم فروری 1886ء تا 20 جولائی 1886ء
- لارڈ سالسبری– 25 جولائی 1886ء تا 11 اگست 1892ء
- ولیم ایورٹ گلیڈسٹون– 15 اگست 1892ء تا 2 مارچ 1894ء
- لارڈ روزبری– 5 مارچ 1894ء تا 22 جون 1895ء
- لارڈ سالسبری– 25 جون 1895ء تا 11 جولائی 1902ء
قیصرِ ہند 1877ء
ترمیم- مزید پڑھیں: ہندوستان میں 1877ء
- مزید پڑھیں: شہنشاہ ہند
منشی عبد الکریم کی آمد اور ملکہ وکٹوریہ کی اتالیقی
ترمیم- مزید پڑھیں: منشی عبد الکریم
وفات
ترمیمجنوری 1901ء کے اوائل میں ملکہ وکٹوریہ علیل ہوئیں اور عمر کے 81 ویں سال میں وہ اپنے مشاغل میں مصروف تھیں حتیٰ کہ اپنے روزنامچہ کے آخری صفحہ وفات سے 7 روز قبل لکھا۔ جنوری 1901ء کے دوسرے ہفتے میں اُن پر فالج کے اثرات نظر آنے لگے اور بینائی کمزور ہو گئی اور وکٹوریہ کو چلنے پھرنے میں دقت پیش آنے لگی۔ 22 جنوری 1901ء کو وکٹوریہ کی علالت میں شدت آگئی، بستر مرگ کے قریب ایڈورڈ ہفتم اور ولہم دوم بیٹھے ہوئے تھے کہ شام 6 بج کر 30 منٹ پر وکٹوریہ انتقال کرگئیں۔ بوقت انتقال عمر 81 سال 7 ماہ 29 دن شمسی تھی۔
تدفین
ترمیمہفتہ 2 فروری 1901ء کو وکٹوریہ کی میت کو سینٹ جارج چیپل، ونڈسر قلعہ میں رکھ دیا گیا تاکہ عوام ان کا آخری بار دیدار کرسکیں۔ پیر 4 فروری 1901ء کو فراگمور، ونڈسر، بارکشائر میں آخری رسومات اداء کی گئیں جن میں یورپ کے شاہی خاندان شریک ہوئے۔ وکٹوریہ یورپ میں واحد اور آخری ملکہ تھیں جن کی آخری رسومات میں تقریباً یورپ کے تمام شاہی خاندان شریک ہوئے، بعد ازاں یہ موقع کسی ملکہ یا بادشاہ کو میسر نہیں آیا۔
وراثت
ترمیم- مزید پڑھیں: متحدہ مملکت برطانیہ عظمی و آئر لینڈ
- مزید پڑھیں: برطانوی راج
- مزید پڑھیں: ایمپریس آف انڈیا میڈل
- مزید پڑھیں: وکٹوریہ کراس
شاہی خطابات
ترمیم- مزید پڑھیں: قانون خطابات شاہی 1876ء
اولاد
ترمیمنگارخانہ
ترمیم-
وکٹوریہ کے ہاتھ کا بنا ہوا ذاتی خاکہ – 1835ء
مزید دیکھیے
ترمیم- ایڈورڈ ہفتم
- منشی عبد الکریم
- برطانیہ کی ملکہ وکٹوریا اور ان کے ہندوستانی خدمت گار کی عجیب و غریب داستانآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ www1.voanews.com (Error: unknown archive URL)
ملکہ وکٹوریہ چھوٹی شاخ ویلف خاندان پیدائش: 24 مئی 1819ء وفات: 22 جنوری 1901ء
| ||
شاہی القاب | ||
---|---|---|
ماقبل | ملکہ مملکت متحدہ 20 جون 1837ء– 22 جنوری 1901ء |
مابعد |
خالی عہدے پر پچھلی شخصیت بہادر شاہ ظفربطور مغل شہنشاہ سلطنت مغلیہ |
شہنشاہ ہند یکم مئی 1876ء– 22 جنوری 1901ء |
ملکہ وکٹوریہ کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے |
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب عنوان : Benezit Dictionary of Artists — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس — ISBN 978-0-19-977378-7 — Benezit ID: https://doi.org/10.1093/benz/9780199773787.article.B00190726 — بنام: Victoria — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Victoria-queen-of-United-Kingdom — بنام: Victoria — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w66z0061 — بنام: Queen Victoria — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/1442 — بنام: Victoria — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب RKDartists ID: https://rkd.nl/artists/80887 — بنام: Victoria — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب مصنف: ڈئریل راجر لنڈی — خالق: ڈئریل راجر لنڈی — پیرایج پرسن آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=4638&url_prefix=https://www.thepeerage.com/&id=p10065.htm#i100648 — بنام: Victoria Alexandrina Hanover, Queen of the United Kingdom — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/viktoria-viktoria — بنام: Viktoria (Großbritannien) — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ http://www.bbc.co.uk/schools/primaryhistory/famouspeople/victoria/
- ↑ http://www.telegraph.co.uk/news/uknews/theroyalfamily/9150661/Kensington-Palace-reopens-its-doors-after-12m-revamp.html
- ↑ http://www.bbc.co.uk/history/british/victorians/queen_victoria_01.shtml
- ↑ Fit for a queen: mounting Victoria's dress — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جنوری 2024
- ↑ عنوان : Kindred Britain
- ↑ عنوان : Oxford Dictionary of National Biography — ناشر: اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس — اوکسفرڈ بائیوگرافی انڈیکس نمبر: https://www.oxforddnb.com/view/article/36652
- ↑ عنوان : Library of the World's Best Literature — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ عنوان : Dictionary of Women Worldwide — ISBN 978-0-7876-7585-1 — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library
- ↑ https://www.prathaculturalschool.com/post/queen-victoria
- ↑ https://www.thersa.org/about/albert-medal/past-winners
- ↑ http://www.express.co.uk/news/royal/603847/Queen-Elizabeth-II-Britain-s-longest-serving-monarch
- ↑ Queen Elizabeth II becomes longest-reigning UK monarch - BBC News
- ↑ The Queen becomes Britain's longest-serving monarch but 'it is not a record to which I have ever aspired' - live - Telegraph
- ↑ Should we celebrate when the Queen becomes our longest reigning monarch? - Telegraph
- ↑ Hibbert, pp. 3–12; Strachey, pp. 1–17; Woodham-Smith, pp. 15–29
- ↑ Hibbert, pp. 12–13; Longford, p. 23; Woodham-Smith, pp. 34–35
- ↑ Hibbert, p. 27; Longford, pp. 35–38, 118–119; St Aubyn, pp. 21–22; Woodham-Smith, pp. 70–72.
- ↑ Waller, pp. 338–341; Woodham-Smith, pp. 68–69, 91
- ↑ Longford, p. 31; Woodham-Smith, p. 75
- ↑ Hibbert, p. 46; Longford, p. 54; St Aubyn, p. 50; Waller, p. 344; Woodham-Smith, p. 126
- ↑ St Aubyn, pp. 55–57; Woodham-Smith, p. 138
- ↑ ملکہ وکٹوریہ: روزنامچہ وکٹوریہ، بابت 20 جون 1837ء۔
- ↑ Woodham-Smith, p. 140
- ↑ St Aubyn, p. 69; Waller, p. 353
- ↑ History of William Lamb, 2nd Viscount Melbourne - GOV.UK
- ↑ Hibbert, p. 83; Longford, pp. 120–121; Marshall, p. 57; St Aubyn, p. 105; Waller, p. 358
- ↑ Marshall, p. 42; St Aubyn, pp. 63, 96
- ↑ Marshall, p. 47; Waller, p. 356; Woodham-Smith, pp. 164–166
- ↑ Hibbert, pp. 77–78; Longford, p. 97; St Aubyn, p. 97; Waller, p. 357; Woodham-Smith, p. 164
- ↑ Hibbert, p. 79; Longford, p. 98; St Aubyn, p. 99; Woodham-Smith, p. 167
- ↑ Rappaport, Helen, Queen Victoria: A Biographical Companion، ABC-CLIO, 2003, p.188.
- ↑ Longford, p. 122; Marshall, p. 57; St Aubyn, p. 104; Woodham-Smith, p. 180
- ↑ Hibbert, pp. 107–110; St Aubyn, pp. 129–132; Weintraub, pp. 77–81; Woodham-Smith, pp. 182–184, 187
- ↑ Hibbert, p. 123; Longford, p. 143; Woodham-Smith, p. 205