زہرہ بائی آگرے والی

موسیقی کے آگرہ گھرانہ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ

زہرہ بائی آگرے والی (پیدائش: 1868ء— وفات: 1913ء) ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے آگرہ گھرانہ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ تھیں جن کا بیشتر زمانہ حیات آگرہ میں بسر ہوا۔زہرہ بائی 1900ء تک گوہر جان کے ساتھ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں شہرت یافتہ مغنیہ تھیں جنھوں نے طوائف کی حیثیت سے موسیقی کا آخری دور دیکھا۔

زہرہ بائی آگرے والی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1868ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1913ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ گلو کارہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

زہرہ بائی کی پیدائش 1868ء میں آگرہ میں ہوئی۔ موسیقی کی تعلیم استاد شیر خان اور استاد کلن خان سے حاصل کی۔ آگرہ سے تعلق رکھنے کی بنا پر زہرہ بائی آگرے والی مشہور ہوئیں۔ زہرہ بائی کو اکثر زہرہ بائی پٹنہ والی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اُن کا قیام پٹنہ میں بھی رہا جہاں وہ پٹنہ کے زمینداروں کے یہاں بھی گایا کرتی تھیں۔[1] زہرہ بائی نے کیرانہ گھرانہ کے دو اساتذہ استاد شیر خان اور استاد کلن خان سے خیال گانا سیکھا تھا جبکہ غزل اور ٹھمری کی تعلیم ڈھاکا کے استاد احمد خان سے حاصل کی۔

زہرہ بائی کا ایک ریکارڈ جو 1910ء میں ریکارڈ کیا گیا۔

موسیقی

ترمیم

زہرہ بائی نے موسیقی کے آگرہ گھرانے سے تعلیم پائی تھی، لہذا وہ اِس گھرانے کی شناخت تصور کی جاتی ہیں۔زہرہ بائی  مردانہ آواز سے گیت گانے میں بھی مہارت رکھتی تھیں۔زہرہ بائی نے کبھی ٹھمری نہیں گائی۔[2] زہرہ بائی کے گراموفون ریکارڈ جن سے بعد کے گلوکاروں نے موسیقی سیکھی، میں کیرانہ گھرانہ کی گلوکارہ گنگوبائی ہنگل بھی شامل ہیں جنھوں نے زہرہ بائی کے گراموفون ریکارڈ سن کر موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔[3] زہرہ بائی کی موسیقی کو آگرہ میں استاد فیاض خان اور پٹیالہ گھرانے کے بڑے غلام علی خان نے بھی اختیار کیا۔ زہرہ بائی نے 1908ء میں گراموفون کمپنی سے ایک معاہدہ کر لیا جس کے تحت 2500 روپئے میں انھیں 25 گیت ریکارڈ کروانے تھے۔ یہ سلسلہ بخوبی چلتا رہا اور 1908ء سے 1911ء کے وسطی زمانے میں انھوں نے 60 گیت ریکارڈ کروائے۔علاوہ ازیں راگ سوہنی اور راگ جونپوری بھی ریکارڈ کے گئے۔ 1994ء میں زہرہ بائی کے پرانے ریکارڈ دوبارہ ترتیب دیے گئے اور انھیں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں شامل کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا گیا۔ زہرہ بائی کو مشہور صوفی شاعرحضرت شاہ اکبر داناپوری سے گہری عقیدت تھی، تائب ہونے کے بعد انھیں سے مرید بھی ہوئی اور انھیں سے اپنے اشعار پر اصلاح بھی لیتی رہی، دوچار شعر سنیے اور لطف لیجیے۔

پی کے ہم تم جو چلے جھومتے میخانے سے

جھک کے کچھ بات کہی شیشے نے پیمانے سے

ہم نے دیکھی ہیں کسی شوخ کی مئے گوں آنکھیں

ملتی جلتی ہیں چھلکتے ہوئے پیمانے سے

زہرہ آپ کی لکھی ہوئی غزل بھی گایا کرتی تھیں۔ [4]

وفات

ترمیم

زہرہ بائی کا انتقال 45 سال کی عمر میں 1913ء میں پٹنہ میں ہوا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. Bharati Ray: Women of India: Colonial and Post-colonial Periods, p. 463
  2. Kumāraprasāda Mukhopādhyāẏa: The Lost World of Hindustani Music, p. 180
  3. Afshana Shafi, Dr: THE LEGACY OF GANGUBAI HANGAL, p. 39
  4. "آرکائیو کاپی"۔ 05 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 جولا‎ئی 2018