زینب بنت علی بن حسین بن عبید اللہ بن حسن بن ابراہیم بن محمد بن یوسف فواز عاملی انیسویں صدی کی آواخر کی لبنانی ادیبہ، شاعرہ اور مؤرخہ ہیں، ان کی ادبی اور ثقافتی زندگی مصر میں گذری ہے، زبان و ادب میں یہ محمد حسین ہیکل سے فائق تھی، اسی طرح انھوں نے مشہور ادیب قاسم امین خواتین کی آزادی سے متعلق ان کی دعوت میں ان سے مقابلہ کیا تھا۔[1]

زینب فواز
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1844ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تبنین   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1914ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت متصرفیہ جبل لبنان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد 0   ویکی ڈیٹا پر (P1971) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیلونیئر ،  حقوق نسوان کی کارکن ،  شاعر ،  ناول نگار ،  ڈراما نگار ،  تاریخ دان ،  مصنفہ ،  فلسفی ،  صحافی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ولادت و حالاتِ زندگی

ترمیم

زینب فواز کی پیدائش لبنان میں جبل عامل کے علاقہ میں تبنین شہر میں سنہ 1844عیسوی مطابق 1262ہجری میں ایک غریب خاندان میں ہوئی۔ تبنین اس وقت "آل علی صغیر" کی حکومت کا مرکز تھا اور وہاں کے حاکم علی بک اسعد تھے۔ زینب فواز حکمران خاندان کی خواتین سے بہت قریب تھیں، بلکہ بچپن کا ایک حصہ قلعہ میں ان کی خادمہ کے طور پر گزارا تھا، علی بک اسعد کی بیوی "سیدہ فاطمہ" کی خاص خادمہ تھی، انھیں سے علم و ادب اور لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور ان سے استفادہ کیا تھا۔

وہیں حکمران خاندان کے ایک درباری سے شادی کر لی، لیکن مزاج میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہی دونوں الگ ہو گئے۔ وہاں سے دمشق چلی گئیں، وہاں مشہور شامی مصنف "ادیب نظمی" سے شادی ہوئی، لیکن ان سے بھی طلاق ہو گیا۔ پھر دمشق ہی میں ایک مصری فوجی سے ملاقات و تعارف ہوا اور ان سے نکاح ہو گیا، ان کے ساتھ مصر کا سفر کیا، وہاں اسکندریہ میں سکونت اختیار کی۔ مصر کے ادبا اور مصنفین سے استفادہ کیا، مثلاً: محمد شلبی، حسن حسنی طویرانی اور محی الدین نبہانی۔ مصر کی علمی و ادبی فضا اور ماحول انھیں راس آگیا، مصر کے بڑے بڑے اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنا شروع کر دیا اور کتابت و شعر میں مشہور ہو گئیں۔

مصر کی خاتون ادبا اور مصنفین کی اولیں صف میں شمار ہونے لگیں، مصر میں اس زمانہ میں عائشہ تیموریہ اور زینب فواز کے علاوہ اور کوئی خاتون ادیب کا نہیں لیا جاتا تھا۔ ان کے مضامین اور ادبی شہ پارے مصر کے چوٹی کے اخبارات و رسائل مثلاً: الموید، النیل، الاھالی، اللواء، الاستاذ اور الفتی جیسے رسائل کی زینت بننے لگے۔ ان مضامین میں وہ عورتوں کی نشاۃ ثانیہ، معاشرہ میں ان کی حقیقی پہچان اور تعلیم کی آزادی وغیرہ جیسے موضوعات پر لکھتی تھیں۔

ایک سے زیادہ شادی کے باوجود ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔[2]

آزادی کا رجحان

ترمیم

زینب فواز کا آزادی کا رجحان، قومی مناقشوں اور عالمی کانفرنسوں میں سامنے آتا تھا، خاص طور سے 1993ء کی سانتیاگو کی خواتین عالمی کانفرنس میں انھوں نے خواتین کے حقوق خصوصاً تعلیم کے تعلق سے کھل کر اظہار کیا تھا، اس کانفرنس کے شرکا نے اس دن خواتین کی تعلیمی آزادی سے متعلق ایک قرارداد بھی پاس کی تھی، چونکہ خواتین کی سرگرمیوں کا میدان گھر اور خاندان تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ ہنا کورانی اس کانفرنس میں شامی خواتین کی نمائندگی کر رہی تھیں، انھوں نے زینب کی اس قرارداد کی مخالفت کی، انھیں دیگر شریک خواتین کی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، چونکہ اکثر خواتین خصوصاً تعلیم کے میدان میں آزادی کے حق میں تھیں۔ زینب فواز نے ہنا کورانی کا "لبنان" نامی جریدہ میں لکھے گئے مضمون کا رد کیا، جس میں انھوں نے خواتین کو گھریلو کام تک محصور اور خارجی ذمہ داریوں سے الگ تھلگ کی دعوت دی تھی۔ ان دنوں لندن میں بھی خواتین کی تحریک زوروں پر تھی، خواتین کے سیاست میں شرکت کی آواز اٹھائی جا رہی تھی، زینب نے اس فکر اور تحریک کی پرزور تائید کی اور ایک مضمون بھی لکھا۔

اس طرح زینب فواز خواتین کی آزادی کی ایک داعی بن گئی، خواتین کے حقوق کو منظم کرنے کے قوانین کی آواز اٹھانے لگی اور تعلیمی اور علمی حقوق کے لیے کوشش کرنے لگی۔ زینب کی تحریروں کا رجحان خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے مشہور ہو گیا۔

تصنیفات

ترمیم

زینب فواز کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں، خوب شہرہ ہوتا تھا۔ چند اہم کتابیں یہ ہیں:[3]

  • الدر المنثور فی طبقات ربات الخدور: اس کتاب میں مشرق و مغرب کی تقریباً 456 خواتین کی تاریخ ہے۔
  • الرسائل الزینبیہ: اس میں عورتوں سے متعلق تحریکات و معاملات درج ہیں، خصوصاً علمی و عملی حقوق کا تذکرہ ہے۔
  • مدارک الکمال فی تراجم الرجال
  • الجوہر النضید فی مآثر الملک الحمید
  • دیوان شعر (اس منظوم کلام ہیں)
  • الہوی و الوفا (شعری ڈراما ہے)
  • حسن العواقب
  • الملک قوروش[4]

سنہ وفات

ترمیم

زینب فواز کی وفات سنہ 1914ء مطابق 1332ھ میں ہوئی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. مؤسسة هنداوي - زينب فواز آرکائیو شدہ 11 فروری 2018 بذریعہ وے بیک مشین
  2. http://almoajam.org/poet_details.php?id=2706[مردہ ربط] ترجمة السيدة زينب فواز في معجم البابطين.
  3. دليل جنوب لبنان كتابا - المجلس الثقافي للبنان الجنوبي - صفحہ 367 - الرقم 643
  4. اسکرپٹ نقص: «citation/CS1/ar» کے نام سے کوئی ماڈیول نہیں ہے۔