سراقہ بن مالک اور سراقہ بن جعثم کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔حنین اور طائف کے معرکوں کے بعد جعرانہ کے مقام پر مشرف با اسلام ہوئے۔اور یوں شرف صحابیت کا درجہ حاصل کیا۔

سراقہ بن مالک
(عربی میں: سراقة بن مالك ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش 6ویں صدی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جزیرہ نما عرب  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 645ء (44–45 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب ترمیم

سراقہ نام، ابو سفیان کنیت،نسب نامہ یہ ہے،سراقہ بن مالک بن جعثم بن مالک بن عمرو بن تیم بن عدلج ابن مرہ بن عبد مناۃ بن علی بن کنانہ عملجی کنانی۔

قبل از اسلام ترمیم

ہجرت میں مکہ سے نکلنے کے بعد رسول اللہ ﷺ کا تعاقب انھوں نے ہی کیا تھا، شبِ ہجرت میں جب آنحضرتﷺ مشرکین کو غافل پاکر مکہ سے نکل گئے اورمشرکین کو اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی، تو انھوں نے اعلان کیا کہ جو شخص محمدﷺ اور ابوبکر کو قتل کردیگا یا انھیں زندہ پکڑ لائیگا اس کو گراں قدر(١٠٠،اونٹ)انعام دیا جائے گا، سراقہ اپنے قبیلہ بنی مدلج کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص نے آکر ان سے کہا کہ میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ لوگ جاتے ہوئے دیکھے ہیں، میرا خیال ہے کہ وہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی تھے، سراقہ کو یقین ہو گیا، لیکن انعام کی طمع میں انھوں نے تردید کی کہ نہیں وہ لوگ نہیں ہیں، تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا، جو ابھی ہمارے سامنے گئے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد سراقہ اٹھ کر گھر گئے اور لونڈی سے کہا کہ وہ گھوڑا تیار کرکے انھیں آکے ایک مقام پر دے اورنیزہ سنبھال کر چپکے سے گھر کی پشت سے نکلے، لونڈی سے گھوڑا لیا اور لوگوں کی نظر بچا کر نکل گئے اورگھوڑا دوڑاتے ہوئے آنحضرتﷺ کے پاس پہنچ گئے ،جیسے ہی قریب پہنچے گھوڑے نے ٹھوکر لی، اوریہ نیچے گر گئے اسے انھوں نے بدشگونی پر محمول کیا، استخارہ کے تیر ساتھ تھے، فوراً انھوں نے ترکش سے نکال کر استخارہ دیکھا کہ وہ رسول اللہ کو گزند پہنچا سکتے ہیں یا نہیں، استخارہ خلاف نکلا، لیکن انعام کی طمع میں انھوں نے استخارہ کی پروا نہ کی اورگھوڑے پر سوار ہوکر پھر آگے بڑھے، اب اتنے قریب پہنچ گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کی تلاوت کی آواز انھیں سنائی دینے لگی، رسول اللہ ﷺ ہمہ تن تلاوت میں مصروف تھے، لیکن ابوبکر بار بار مڑ مڑ کے دیکھتے جاتے تھے،اتنے میں سراقہ کے گھوڑے کے اگلے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑے، پھر گھوڑے کو ڈانٹ کر اٹھایا،جب اس نے اپنے پاؤں زمین سے نکالے تو بڑا غبار بلند ہوا، اس دوسری بد شگونی پر انھوں نے پھر تیروں سے استخارہ کیا،اس مرتبہ بھی مخالف جواب ملا، اب انھیں اپنی ناکامی کا پورا یقین ہو گیا اوران کے دل میں بیٹھ گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ضرور کامیابی ہوگی؛چنانچہ انھوں نے آواز دیکر روکا،آپ رک گئے اور سراقہ نے پاس جاکر کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کی گرفتاری پر انعام مقرر کیا ہے اوران کے ارادوں سے آپ کو خبردار کیا اور جو کچھ زاد راہ ساتھ تھا اس کو آپ کے سامنے پیش کیا، آپ نے اسے قبول نہیں فرمایا، البتہ یہ خواہش کی کہ وہ کسی کو آپ کی اطلاع نہ دیں اس کے بعد سراقہ نے درخواست کی کہ انھیں ایک امان نامہ مرحمت فرمایا جائے،آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا،انھوں نے چمڑے کے ٹکڑے پر امان نامہ لکھ کر دیا اورسراقہ لوٹ گئے۔[1]

انتظام ترمیم

اس واقعہ کے آٹھ سال بعد جب مکہ فتح ہو چکا اورمشرکین کی قوتیں ٹوٹ چکیں اور حنین وطائف کی لڑائیاں ختم ہولیں اس وقت سراقہ رسول اللہ ﷺ سے جب کہ آپ حنین اور طائف کے معرکوں سے واپس آ رہے تھے راستہ میں مقام جعرانہ میں ملے اور رسول اللہ ﷺ کا عطا کیا ہوا امان نامہ پیش کرکے اپنا تعارف کرایا کہ یہ تحریر آپ نے مجھے دی تھی اور میں سراقہ بن جعثم ہوں، آپ نے ارشاد فرمایا آج ایفائے عہد اورنیکی کا دن ہے۔ سراقہ اس وقت مشرف باسلام ہو گئے۔

ذات نبوی سے استفادہ ترمیم

سراقہ بہت آخر میں اسلام لائے،اس لیے انھیں صحبت نبویﷺ سے استفادہ کا بہت کم موقع ملا، لیکن قبولِ اسلام کے بعد زیادہ تر مدینہ میں رہے، اس لیے تلافی مافات کا کچھ نہ کچھ موقع مل گیا تھا اور اس موقع سے انھوں نے پورا فائدہ اُٹھایا،آنحضرتﷺ خود انھیں تعلیم و تربیت دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا،سراقہ میں تمھیں جنتیوں اوردوزخیوں کی پہچان بتاؤں؟عرض کیا ہاں، ارشاد فرمایا تندخو اترا کر چلنے والا اورمتکبر دوزخی ہے اور زیردست ضعیف اورناتواں جنتی ہے۔ [2] سراقہ خود بھی پوچھ پوچھ کر استفادہ کیا کرتے تھے۔ آخری سوال انھوں نے آنحضرتﷺ کے مرض الموت میں کیا، پوچھا یا رسول اللہ اگر کوئی بھٹکا ہوا اونٹ میرے اونٹ کے حوض پر آئے ،جسے میں نے خاص اپنے اونٹ کے لیے بھرا ہو اور میں اس میں بھٹکے ہوئے اونٹ کو پانی پلادوں تو کیا مجھ کو اس کا کوئی اجر ملے گا، فرمایا کیوں نہیں ہر جاندار کو پانی پلانے میں ثواب ہے۔ [3]

حجۃ الوداع ترمیم

حجۃ الوداع میں آنحضرتﷺ کے ساتھ تھے؛چنانچہ جب آنحضرتﷺ مقام عسفان میں پہنچے،تو سراقہ نے سوال کیا یا رسول اللہ ﷺہمیں اس نومولود قوم کی طرح تعلیم دیجئے جو گویا ابھی ظہور میں آئی ہے،ہمارا یہ عمرہ اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا،نہیں ہمیشہ کے لیے ۔[4]

ایک پیشین گوئی ترمیم

آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ ان سے فرمایا تھا کہ سراقہ اس وقت تمھارا کیا حال ہوگا، جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے؛ چنانچہ عمر فاروق کے زمانہ میں جب مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور کسریٰ کے ملبوسات عمر بن خطاب ؓ کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے سراقہ کو بلاکر کسری کا تاج ان کے سرپر رکھا اور اس کے کنگن پہنا کر اس کا پٹکا ان کی کمر میں باندھا۔[5]

وفات ترمیم

عثمان بن عفان کے عہدِ خلافت میں 24ھ میں وفات پائی۔

فضل وکمال ترمیم

گو سراقہ کو ذات نبویﷺ سے استفادہ کا بہت کم موقع ملا، تاہم ان سے انیس19 حدیثیں مروی ہیں،جابر،ابن عمر ، ابن مصیب، مجاہد اورمحمد بن سراقہ نے ان سے روایت کی ہے۔ [6] شاعر بھی تھے ؛چنانچہ آنحضرتﷺ کے تعاقب میں جو واقعات پیش آئے ان کی داستان ابو جہل کو نظم میں سنائی تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. بخاری،جلداول،باب بنیان الکعبۃ باب ہجرۃ النبی ﷺ واصحابہ ابی المدینۃ
  2. (مسند احمد بن حنبل:4/175)
  3. (ایضاً)
  4. مسند احمد بن حنبل:4/175
  5. اصابہ:2/69
  6. (تہذیب الکمال:161)