غزوہ موتہ
یہ جنگ جمادی الاول 8ھ (ستمبر 629ء) میں جنوب مغربی اردن میں موتہ کے مقام پر ہوئی جو دریائے اردن اور اردن کے شہر کرک کے درمیان میں ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شریک نہیں تھے اس لیے اسے غزوہ نہیں کہتے بلکہ جنگ یا سریہ یا معرکہ (عربی میں معركة مؤتہ ) کہتے ہیں۔ اس میں علی المرتضی سمیت کئی جلیل القدر صحابہ شامل نہیں تھے۔ یہ بازنطینی (مشرقی رومی) افواج اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوئی۔ بازنطینی افواج میں نصف عرب مسیحی بھی شامل تھے جن کا تعلق اردن و بلاد شام سے تھا۔ جنگ کسی واضح نتیجہ کے بغیر ختم ہوئی اور طرفین (آج کے مسلمان اور مغربی دنیا) اسے اپنی اپنی فتح سمجھتے ہیں۔
جنگ موتہ | |||
---|---|---|---|
سلسلہ عرب بازنطینی جنگیں | |||
عمومی معلومات | |||
| |||
متحارب گروہ | |||
مسلمانانِ مدینہ | غساسنہ بازنطینی روم | ||
قائد | |||
زید بن حارثہ جعفر طیار عبداللہ بن رواحہ خالد بن ولید |
ھرکال تذارق شرحبيل ابن عمرو | ||
قوت | |||
3000 | 2 لاکھ (نصف رومی اور نصف مسیحی عرب) | ||
نقصانات | |||
12 شہادتیں | 20 ہزار سے کچھ زائد | ||
درستی - ترمیم |
پس منظر
ترمیمصلح حدیبیہ کے بعد مسلمان اور قریش کے درمیان میں کچھ وقت کے لیے جنگ نہ ہوئی۔ یمن کے ساسانی گورنر کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے قبائل بھی مسلمان ہو گئے تھے۔ اس طرف سے اطمینان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ کے لیے کچھ سفیر اردن اور شام کے عرب قبائل کی طرف روانہ کیے جنہیں ان قبائل نے سفارتی روایات کے برخلاف قتل کر دیا۔[1] یہ عرب قبائل بازنطینی سلطنت (مشرقی روم کی سلطنت) کے باج گزار تھے۔ سفیروں کے قتل کے بعد ان قبائل کی سرکوبی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے 3000 کی ایک فوج تیار کر کے مغربی اردن کی طرف روانہ کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سپہ سالاروں کی ترتیب یہ رکھی کہ زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا، ان کی شہادت کی صورت میں جعفر بنابی طالب(جعفر طیار) کو مقرر کیا اور ان کی شہادت کی صورت میں عبداللہ بن رواحہ کو مقرر کیا۔ اور یہ کہ اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو لشکر اپنا امیر خود چن لے۔ دوسری طرف سے ہرقل کی قیادت میں ایک لاکھ رومی اور ایک لاکھ عرب قبائل پر مشتمل فوج بھی تیار ہوئی جو مروجہ ہتھیاروں سے لیس تھی۔ جب مسلمان موتہ پہنچے اور دشمنوں کی تعداد کا پتہ چلا تو انھوں نے پہلے سوچا کہ مدینہ سے مزید کمک آنے کا انتظار کیا جائے مگرعبداللہ بن رواحہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے اسلامی فوج کی ہمت افزائی کی اور اسلامی فوج نے پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے جنگ کی۔[2]
جنگ
ترمیمجنگ شروع ہوئی تو زید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے شجاعت کے ساتھ جنگ کی۔ رومی افواج تجربہ کار تھیں۔ انھوں نےزید بن حارثہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو نیزوں کی مدد سے زمین پر گرا کر شہید کر دیا تو جعفر طیار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے علم سنبھال کر اسلامی افوج کی قیادت کی مگر جب وہ گھیرے میں آ گئے اور محسوس کر لیا کہ اب شہادت قسمت میں لکھی ہے تو اپنا گھوڑا فارغ کر دیا اور پیدل نہایت خونریز جنگ کی اور 80 زخم کھائے۔ اس دوران میں ان کے دونوں ہاتھ کٹ گئے اور وہ شہید ہو گئے۔[3] ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے علم سنبھالا اور رومی افواج کے مرکز میں زبردست حملہ کیا۔ شدید لڑائی میں وہ بھی شہید ہو گئے۔ ۔[4] جب یہ تینوں نامزد قائد شہید ہو گئے تو اسلامی فوج نے خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کو اپنا امیر چنا۔خالد بن ولید رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ حال ہی میں اسلام لائے تھے اور اعلیٰ درجہ کے سپاہی اور جنگجو تھے۔ انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ مسلمانوں کے جنگ جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اسی اثناء میں رات ہو گئی۔ انھوں نے اپنی افواج کو پیچھے ہٹا لیا۔ انھوں نے ایک زبردست جنگی حربہ اختیار کیا۔ انھوں نے بے شمار سپاہیوں کو پہاڑ کی اوٹ میں بھیج دیا اور ان سے کہا کہ اگلی صبح نئے جھنڈوں کے ساتھ گردو غبار اڑاتے ہوئے پیچھے سے اسلامی فوج میں شامل ہو جائیں۔ اس تدبیر سے رومی سمجھے کہ مدینہ سے مسلمانوں کے لیے نئی امداد آ گئی ہے۔ رومیوں نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور جنگ رک گئی۔ اس طرح دونوں افواج واپس چلی گئیں اور مسلمانوں کو دو لاکھ کی رومی فوج سے بچا کر مدینہ واپس لایا گیا [5][6]
نتائج
ترمیمجنگ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا۔البتہ نتائج مسلمانوں کے حق میں نکلے۔ اول تو لوگوں نے پہلی دفعہ دیکھا کہ رومیوں کے اتنے بڑے لشکر کو کسی نے للکارا ہو اور بچ کر نکل گیا ہو۔ لوگوں کے ذہن سے رومیوں کی دہشت کسی قدر کم ہو گئی۔ دوم یہ کہ بلاد شام و اردن کے لوگوں کو مسلمانوں اور ان کی زبردست طاقت کا تعارف ہو گیا کیونکہ یہ پہلی اسلامی فوج تھی جو مدینہ سے اس قدر باہر جا کر لڑی۔ اس علاقے کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کا جذبہ شہادت ایک بالکل نئی چیز تھی۔ ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو کمزور سمجھنا شروع کر کے ایسے اقدام کیے جو صلح حدیبیہ کے خلاف تھے۔ اس سے صلح حدیبیہ مشرکین کی طرف سے ٹوٹ گیا اور مسلمانوں نے اس کے بعد مکہ کو فتح کر لیا۔
پیش منظر
ترمیممسلمان چونکہ یہ جنگ واضح طور پر نہ جیت سکے تھے اس لیے مکہ کے مشرک قریش نے مسلمانوں کو کمزور سمجھا اور صلح حدیبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے قبیلہ بنی خزاعہ کے کچھ لوگ شہید کر دیے۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا کیونکہ قبیلہ بنی خزاعہ کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے تھے اور قریش صلح حدیبیہ کی رو سے ان سے جنگ و قتال نہیں کر سکتے تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا کہ اب ان کی خیر نہیں اور مسلمان اس بات کا بدلہ ضرور لیں گے۔ اس نے مدینہ کا دورہ بھی کیا تاکہ صلح حدیبیہ کی تجدید کی جائے مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جواب نہ دیا اور ابوسفیان غصے کی حالت میں مکہ واپس چلا گیا ۔[7] قتل شدہ افراد کے قبیلہ نے مسلمانوں سے فریاد کی اور اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً رمضان 8ھ میں مکہ فتح ہو گیا۔