سعید بن عامر بن حذیم
سعید بن عامر بن خدیمؓ صحابی رسول تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ خیبر سے قبل مشرف باسلام ہوئے ۔اسلام لانے کے بعد مدینہ ہجرت کی غزوہ خیبر اور دیگر تمام غزوات میں شامل ہوئے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں 21ھ میں وفات پائی ۔
سعید بن عامر بن حذیمؓ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمسعید نام، سلسلہ نسب یہ ہے، سعید بن عامر بن حذیم بن سلامان بن ربیعہ بن سعد ابن جمح بن عمروبن بصیص بن کعب، ماں کا نام اروی تھا، نانہالی سلسلہ نسب یہ ہے اروی بنت ابی معیط بن ابی عمرو بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف [1]
اسلام و ہجرت
ترمیمحضرت سعید بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ خیبر کے قبل مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ [2]
غزوات
ترمیممدینہ آنے کے بعد سب سے اول غزوہ خیبر میں شریک ہوئے، پھر تمام لڑائیوں میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ [3]
جنگ یرموک
ترمیمحضرت عمرؓ بن خطاب کے عہدِ خلافت میں جب حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے جنگ یرموک کی مہم کے لیے مزید امدادی فوج طلب کی تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ روانہ کیا اس مہم میں انھوں نے بڑے نمایاں کارنامے دکھائے۔
حمص کی گورنری
ترمیمعباس بن غنم کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ نے ان کی جگہ ابن عامر کو حمص کی گورنری پر مامور کیا، ان کے عہدِ حکومت میں کسی نے حضرت عمرؓ کو اطلاع دی کہ سعید پر جنون کا اثر رہتا ہے،آپ نے ان کو تحقیق کے لیے طلب کیا، اس طلبی پر حمص کا والی اس سروسامان سے آیا کہ ہاتھ میں ایک عصا تھا اور کھانے کے لیے ایک پیالہ،حضرت عمرؓ نے پوچھا بس اسی قدر سامان ہے ،عرض کیا،اس سے زیادہ اورکس چیز کی ضرورت ہے، پیالہ میں کھاتا ہوں اور عصا پر زادراہ لٹکاتا ہوں، پوچھا میں نے سنا ہے تم پر جنون کا اثر ہے، ابن عامر نے اس سے انکار کیا، حضرت عمرؓ نے فرمایا، پھر مجھ کو کیسے اطلاع ملی کہ تم پر غشی کے دورے ہوتے ہیں،کہا ہاں سچ ہے ،اس کا سبب یہ ہے کہ حبیب بن عدی کے مصلوب ہوتے وقت میں بھی موجود تھا اور وہ اس حالت میں قریش کے لیے بددعا کرتے تھے اور چونکہ میں بھی قریشی ہوں، اس لیے جب یہ منظرسامنے آتا ہے تو غشی کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے،اس تحقیقات کے بعد حضرت عمرؓ نے واپس کرنا چاہا،ابن عامر نے جانے سے انکار کیا، مگر حضرت عمرؓ نے مجبور کرکے واپس کیا۔ [4]
وفات
ترمیمسنہ وفات میں اختلاف ہے،بعض 19ھ اور بعض 21ھ بتاتے ہیں ، وفات کے وقت چالیس سال کی عمر تھی۔
فقر و درویشی
ترمیمابن عامرؓ کازہدوتقویٰ درجۂ کمال کو پہنچا ہواتھا، حمص کی گورنری کے زمانہ میں اس فقیرانہ شان سے رہتے تھے ؛کہ ان میں اور عام مساکین میں کوئی امتیاز باقی نہ رہا تھا، حضرت عمرؓ جب حمص گئے تو وہاں کے فقراء کے معاش کا انتظام کرنے کے لیے ان کی فہرست طلب کی، فہرست تیار ہوکر آئی تو منجملہ اور ناموں کے ایک نام سعید بن عامر بھی تھا، حضرت عمرؓ نے پوچھا، یہ سعید بن عامر کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا امیر المومنین ہمارے اور آپ کے امیر آپ نے حیرت سے پوچھا کہ تمھارا امیر اور فقیر! وظیفہ کیا کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا، اس کو وہ ہاتھ نہیں لگاتے،حضرت عمرؓ یہ زہد وورع سن کر رونے لگے اور فوراً ایک ہزار دینار کی تھیلی ابن عامر کے پاس بھیجی کہ اس کو اپنی ضروریات میں صرف کریں، سعید نے اس کو دیکھتے ہی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، بیوی نے پوچھا خیریت ہے،کیا امیر المومنین کو خدانخواستہ کوئی گذند پہنچا ،فرمایا اس سے زیادہ اہم حادثہ ہے،بیوی نے کہا کیا قیامت آگئی، فرمایا قیامت سے بھی زیادہ خطرناک،انھوں نے کہا آخر معاملہ کیا ہے ،فرمایا دنیا فتنوں کو لے کر میرے پاس آئی ہے وہ بولیں پھر کوئی تدارک کردو، انھوں نے یہ تدارک کیا کہ پوری رقم ایک تو بڑے میں ڈال دی اور ساری رات نماز پڑہتے رہے، صبح کو جب اسلامی لشکر ادھر سے گذرا تو کل روپیہ اٹھاکر اس کی ضروریات کے لیے دیدیا۔ [5]
محکوم کی ہمدردی
ترمیممحکوموں کی ہمدردی و غمخواری آپ کا نمایاں وصف تھا ،جہاں حاکم رہے وہاں کی رعایا آپ کی ہمدردی کی گرویدہ رہی ،شام کی رعایا آپ سے بہت خوش رہتی تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ شام والے تم سے اس قدر محبت کیوں کرتے ہیں، کہا میں ان کی گلہ بانی کے ساتھ ان کی غمخواری بھی کرتا ہوں، آپ نے خوش ہوکر دس ہزار کی گراں قدر رقم ان کو دینا چاہی ،انھوں نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ میرے گھوڑوں اور غلاموں کی آمدنی میرے لیے کافی ہے، میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا کام فی سبیل اللہ کروں، حضرت عمرؓ نے اصرار کیا کہ اس کو لے لو، واپس نہ کرو، ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ مجھ کو کچھ مال دیا تھا میں نے بھی تمھاری طرح یہی جواب دے کر واپس کرنا چاہا تھا، تو آپ نے فرمایا کہ اگر بغیر سوال کے اللہ دے تو اس کو لے لیا کرو کہ وہ اس کا عطیہ ہے۔