حضرت سعید بن عبدالعزیزؒ
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش ۹۰ھ

نام ونسب ترمیم

سعید نام اور ابو محمد یاابو عبدالعزیز کنیت ہے،نسب نامہ یہ ہے:سعید بن عبدالعزیز بن ابی یحییٰ [1]تنوخی خاندانی نسبت ہے،تنوخ ان قبائل کا نام ہے جو قدیم زمانہ میں بحرین میں آباد ہوگئے تھے اورباہمی تعاون کا حلف لے رکھا تھا، تنوخ کے لغوی معنی اقامت کے ہیں۔ [2]

ولادت اوروطن ترمیم

۹۰ھ میں پیدا ہوئے،اصلاً بحرین کے رہنے والے تھے لیکن بدوشعور کے بعد عمر بھر شام کے پایہ تخت دمشق میں سکونت پذیر رہے اس لیے دمشقی بھی کہلاتے ہیں۔

فضل وکمال ترمیم

علمی اعتبار سے وہ شام کے بلند مرتبہ فقہاء ومحدثین میں تھے ،اجلہ تابعین سے اکتساب فیض کی سعادت نصیب ہوئی،قرآن حدیث اور فقہ جملہ علوم کے جامع تھے،عبادت وریاضت اور خوف وخشیت ان کی کتاب زندگی کے روشن ابواب ہیں،حاکم کہتے ہیں کہ تفقہ ودیانت اور علم وفضل کے اعتبار سے سعید بن عبدالعزیز کو شام میں وہی مقام حاصل تھا جو امام مالک کو اہل مدینہ میں [3]امام اوزاعی فقہ وافتاء کے مشہور زمانہ امام تھے،ان سے اگر کوئی شخص ابن عبدالعزیز کی موجودگی میں استفتاء کرتا تو فوراً فرماتے :سلوا ابا محمد [4]

شیوخ ترمیم

ان کے اساتذوشیوخ میں ہر فن کے ماہرین کی کافی تعداد ملتی ہےممتاز اور مشہورائمۃ میں،مکحول دمشقی،نافع مولیٰ ابن عمر،قتادہ زہری،ربیعہ بن یزید الدمشقی بلال بن سعد سلیمان بن موسیٰ ،عبدالعزیز بن صہیب ،اسماعیل بن عبیداللہ،عطیہ بن قیس یونس بن میسرہ اورابو الزبیر کے نام شامل ہیں۔

تلامذہ ترمیم

اسی طرح ان کے تلامذہ اور منتبسین کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے،جن میں عبداللہ بن مبارک بن شابور،مروان بن محمد،وکیع بن الجراح،ولید بن مسلمہ،یحییٰ بن اسحاق،مسکین بن بکیر، عبدالملک بن محمد الصغانی،یحییٰ بن سعید القطان،ابومسہر،یحییٰ بن بشر، ابو نصر،محمد بن عثمان التنوخی جیسے اکابر اہلِ علم فضلاء شامل ہیں، علاوہ ازیں ان کے معاصرین میں سفیان ثوری،اورامام شعبہ نے بایں ہمہ جلالت علم ان سے روایت کی ہے ۔ [5]

قرآن ترمیم

علوم قرآن میں انہیں کافی دسترس اورقدرت حاصل تھی، اس کی تحصیل انہوں نے علی بن عامر اوریزید بن ابی مالک سے کی تھی۔

حدیث ترمیم

گوحدیث میں انہیں کوئی قابل ذکر مقام حاصل نہ تھا، تاہم شامی شیوخ کی جس قدر بھی مرویات کا سماع انہوں نے کیا تھا،اس میں ان کا ثانی نہیں ملتا، امام احمدؒ کا ارشاد ہے۔ لیس بالشام اصح حدیثاً منہ [6] شام میں ان سے زیادہ صحیح الحدیث کوئی نہ تھا۔ عمر بن علی کہتے ہیں کہ شامیوں کی حدیثیں بالعموم ضعیف ہوتی ہیں،لیکن اس کلیہ سے دو علماء مستثنیٰ قرار دئیے جانے کے مستحق ہیں،ایک امام اوزاعی اوردوسرے سعید بن عبدالعزیز۔ [7]

فقہ ترمیم

سعید بن عبدالعزیز کے صحیفہ کمال کا درخشاں ترین ورق فقہ میں ان کی غیر معمولی مہارت ہے،امام اوزاعی کے بعد شام میں اس فن کا ان سے بڑاعالم کوئی نہ ہوا؛بلکہ ابومسہرتو فقہی کمال میں انہیں امام اوزاعی پر بھی فوقیت دیتے ہیں ابو حاتم کا بیان ہے کہ: لا اقدم بالشام بعد الاوزاعی علی سعید احداً [8] میں شام میں امام اوزاعی کے بعد فقہ میں سعید بن عبدالعزیز پر کسی کو فوقیت نہیں دیتا۔ اسی باعث زبان خلق نے انہیں "فقیہ الشام بعد الاوزاعی"اورمفتی دمشق کے خطاب سے سرفراز کیا۔

ثقاہت ترمیم

ائمہ جرح وتعدیل نے بالاتفاق ان کی عدالت ،ثقاہت اورصداقت کو تسلیم کیا ہے،ابن معین انہیں حجۃ اورامام نسائی ثقہ مثبت قرار دیتے ہیں،مزید برآں ابو حاتم عجلی اورمحمد بن اسحاق وغیرہ صراحت کے ساتھ ان کی توثیق کرتے ہیں [9]ابن حبان کتاب الثقات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ کان من عباد اھل الشام وفقھا ئھم ومتقنیھم فی الروایۃ [10] وہ شام کے عباد،فقہاء اورصاحب اتقان علماء میں تھے۔

قوتِ حافظہ ترمیم

انہوں نے حفظ وذہانت سے بھی حصہ وافر پایا تھا،خود ہی فرمایا کرتے تھے میں نے حدیث کبھی نہیں لکھی ،یعنی شیوخ سے روایت سُن کر اپنے حافظہ کے خزانے میں محفوظ کرلیتے تھے،لیکن ان کے بعض تلامذہ کا خیال ہے کہ آخر زمانہ میں بتقاضائے عمر سوء حافظہ اور فطور عقل میں مبتلا ہوگئے تھے۔ [11]

خشیت الہی ترمیم

وہ علم کے ساتھ ساتھ عمل کا بھی پیکر مجسم تھے نہایت عبادت گذار تھے لیکن بایں ہمہ خوف وخشیت الہیٰ سے ہر آن لرزاں رہتے رات بھر نماز پڑھتے اور ساتھ ہی آنسوؤں کا سیل رواں رہتا،ابوالفراالفرابیسی چشم دید راوی ہیں کہ میں نے ایک بار ان کو نماز پڑھتے دیکھا،ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ کر چٹائی پر گررہے تھے،محمد بن مبارک الصوری کا بیان ہے جب بھی سعید بن عبدالعزیز کی کوئی نماز یا جماعت فوت ہوجاتی،بے تحاشا روتے تھے۔ [12]

خشوع وخضوع ترمیم

اسی کے ساتھ ان کی عبادت میں خشوع بدرجہ اتم موجود ہوتا،جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو جہنم متشکل ہوکر سامنے آتی اوروہ دنیا ومافیہا سے کٹ کر پروردگار کے حضور میں اپنی عبودیت کا نذرانہ پیش کرتے خود بیان کرتے ہیں کہ ‘ماقمت الی صلوۃ الا مثلت لی جھنم [13]یعنی جب میں نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہوں تو جہنم اصل روپ میں میرے سامنے آتی ہے۔

اقوالِ زریں ترمیم

آپ کے جن بعض ملفوظات کا ذکر کتب طبقات میں ملتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلند پایہ عالم، فقیہ اورمحدث ہونے کے ساتھ ایک خدا رسیدہ بزرگ بھی تھے، ان کا معمول تھا کہ جب کوئی شخص کسی مسئلہ میں سوال کرتا تو جواب دینے سے قبل یہ ضرور فرماتے لا حول ولا قوة إلاّ بالله، هذا رأي، والرأي يخطي ويصيب. ایک بار کسی نے قدرکفاف (یعنی جتنا رزق زندگی اورموت کا رشتہ قائم رکھنے کو کافی ہو)کی توضیح چاہی تو فرمایا: هو شبع يوم وجوع يوم ،یعنی ایک دن فاقہ کرو اور ایک دن سیر ہوکر کھاؤ، ایک مرتبہ اثناء گفتگو میں کسی شخص کی زبان سے اطال اللہ بقاءک نکل گیا،فورا فرمایا:لابل عجل اللہ بی الی رحمتہ۔

وفات ترمیم

مہدی کے ایام خلافت ۱۶۷ھ میں بمقام دمشق رحلت فرمائی،وفات کے وقت ۸۰ سال کے قریب عمر تھی۔

حوالہ جات ترمیم

  1. (طبقات ابن سعد:۷/۱۷۱)
  2. (اللباب فی تہذیب الانساب:۱/۱۸۴)
  3. (شذرات الذہب:۱/۲۶۳)
  4. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۸)
  5. (تہذیب التہذیب:۴/۵۹،۶۰)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۹۸)
  7. (تہذیب التہذیب:۴/۶۰)
  8. (تہذیب التہذیب:۴/۶۰)
  9. (میزان الاعتدال:۱/۳۸۶)
  10. (تہذیب التہذیب:۴/۶۰)
  11. (میزان الاعتدال:۱/۳۸۶)
  12. (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۸)
  13. (شذرات الذہب:۱/۲۶۳)