2003ء میں عراق پر اتحادی افواج کے حملے کے ہفتوں بعد امریکی افواج نے دار الحکومت بغداد کی جانب پیش قدمی کی اور شہر کے جنوبی علاقوں میں عراقی افواج کی کمزور مزاحمت کے بعد 5 اپریل کو بغداد کے ہوائی اڈے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دو روز بعد صدام حسین کے محلات پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں چھاؤنیاں قائم کیں۔ محلات پر قبضے اور اس کی خبر پوری دنیا میں نشر ہونے کے بعد امریکی افواج نے بغداد میں عراقی افواج کو ہتھیار ڈالنے کی ہدایت کی اور بصورت دیگر شہر پر دھاوا بولنے کی دھمکی دی۔ عراقی حکومت کے عہدے داران اپنی روپوش تھے اور 9 اپریل 2003ء کو عراق کا دار الحکومت بغداد ایک مرتبہ پھر بیرونی حملہ آوروں کا نشانہ بن گیا اور صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔

سقوط بغداد
بسلسلۂ:جنگ عراق 2003ء
سلسلہ عراقی جنگ   ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 
عمومی معلومات
آغاز 3 اپریل 2003  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 12 اپریل 2003  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک عراق   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صفحہ ماڈیول:Coordinates/styles.css میں کوئی مواد نہیں ہے۔33°20′00″N 44°26′00″E / 33.333333333333°N 44.433333333333°E / 33.333333333333; 44.433333333333   ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
 عراق  امریکا
نقصانات
2،320 ہلاکتیں 4,712 ہلاکتیں، سینکڑوں زخمی
Map

اس موقع پر جس واقعے کی سب سے زیادہ تشہیر کی گئی وہ وسطی بغداد میں صدر صدام حسین کے مجسمے کی زمین بوسی تھی۔

سقوط بغداد کے ساتھ ہی ملک بھر میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو گئی اور عراق کے شہروں کوت اور ناصریہ نے تو ایک دوسرے کے خلاف جنگ تک کا اعلان کر دیا۔ عراق کی یہ صورت حال آج تک قائم ہے جہاں اب تک لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں۔

سقوط بغداد کے وقت فرار ہونے والے عراقی صدر صدام حسین اور ان کے صاحبزادے عودے اور قوصے حسین بعد ازاں گرفتار اور قتل ہوئے۔ عودے اور قوصے 22 جولائی 2003ء کو ایک چھاپے میں مارے گئے جبکہ صدام حسین 13 دسمبر 2003ء کو تکریت کے نواح میں (امریکی ذرائع کے مطابق) ایک زیر زمین پناہ گاہ سے گرفتار ہوئے۔

وجوہ ترمیم

مبصرین کے مطابق امریکی حملے کا مقصد مسرق وسطٰی کے تیل کے زخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ اس رائے کی تائید امریکی فیڈرل ریزرو بنک کے سابق سربراہ ایلن گرینسپین نے اپنی کتاب میں کی ہے۔[1][2] سپین کے وزیر اعظم اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی گفتگو فاش ہونے سے بھی ثبوت ملا ہے کہ امریکا عراق پر حملہ کرنے کا عزم کر چکا تھا چاہے اقوام متحدہ کی security council سے اجازت ملے یا نہ۔[3] حملے سے ایک سال پہلے تیل کی بین الاقوامی کمپنیوں نے تیل پر قبضہ کے لیے مغربی حکومتوں سے صلاح مشورے کیے۔[4]

لوٹ مار ترمیم

امریکی حملے کے بعد عراق میں میسوپوٹامیہ اور سمیرا کے آثارِ قدیمہ کو بے دردی سے مکمل طور پر لوٹ لیا گیا۔[5] اس کے علاوہ بہت سے تاریخی نوادرات تباہ کر دیے گئے۔ امریکی تاجروں کا درینہ مطالبہ تھا کہ ان قدیم تہذیبوں کے نوادرات کو عراق سے باہر لے جانے اور ان کی تجارت پر صدر صدام حسین کی لگائی گئی پابندی ختم ہونی چاہیے۔ قبضہ کے بعد پوری پوری فیکٹریاں اکھاڑ کر لوہا، تانبا اور دوسری معدنیات ٹرکوں کے ذریعہ عراق سے چوری کر کے اردن کے راستے باہر بھیج دی گئیں، جس کی اقوام متحدہ نے تصدیق کی۔ قیمتی یورینیم 550 میٹرک ٹن 2008ء میں چوری کر کے انٹاریو پہنچایا گیا۔[6]

قتل و غارت ترمیم

امریکی حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد کا تخمینہ ساڑھے سات (7.5) لاکھ لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسی (80) لاکھ افراد زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔[7] ایک اور اندازے کے مطابق دس لاکھ عراقی ہلاک ہوئے جسے نسل کُشی کہا جا سکتا ہے۔[8]

2004ء میں عراقی شہر فالوجہ پر حملے کے دوران اور بعد امریکی افواج بدترین قتلِ عام میں ملوث رہی۔[9]

امریکی افواج نے جینوا ماہدہ (Geneva convention) کی رو سے جنگی جرائم سرزد کیے، مگر اس میں ملوث فوجیوں کو کاغذی کارروائی کے بعد امریکی فوجی عدالتوں نے چھوڑ دیا۔[10] چھوٹی سطح کے فوجی بھی نظم و ضبط سے عاری من مانی کرتے ہوئے قتل کرتے رہے۔[11] سابق امریکی فوجی ایڈورڈ سنوڈن نے بتایا کہ امریکی افواج کے زیادہ تر استاد عربوں کو قتل کرنے کی خواہش سے پُر تھے۔[12]

مارچ 2008ء میں امریکی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے بغداد میں واقع صدر شہر اور جنوب میں بصرہ پر بمباری کی۔ یہ کارروائی عراق کی کٹھ پتلی حکومت کی فوجوں کی امداد میں کی گئی جو مقتدی صدر کے حامی ملیشیا سے لڑائی میں مشغول ہے۔[13]

اقوام متحدہ کے سابق اہلکار البرادی کے مطابق، عراق پر حملے کے نتیجہ میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے اور حملہ ور جنگی جرائم کے مرتکب ہیں۔[14]

انسانی حقوق کی پامالی ترمیم

امریکی افواج نے جینیوا معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور قیدیوں پر بے انتہا ظلم و تشدد میں ملوث رہی۔[15] امریکا کی طرح برطانوی فوج بھی قیدیوں کو تشدد کے ذریعہ ہلاک کرتی رہی۔[16]

قبضہ ترمیم

امریکی فوج عراق میں بڑے فوجی اڈے قائم کر رہی ہے اور ستمبر 2007ء کی تقریر میں امریکی صدر نے عراق پر مستقل فوجی قبضے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔[17] عراقی کٹھ پتلی حکومت نے "تیل قانون" کی منظوری دی جس سے امریکی کمپنیوں کے لیے عراق کے تیل کے زخائر پر قبضہ کرنے کی راہ ہموار ہو گئی اور انھوں نے قبضہ کا عمل شروع کر دیا۔[18] یاد رہے کہ صدر صدام حسین کے تحت تیل کے زخائر اور صنعت قومی ملکیت تھی۔ 2008 میں امریکی حکومت نے مطالبہ کیا کہ اسے عراق میں 50 مستقل فوجی اڈے فراہم کرنا ہوں گے، اس کے علاوہ فضا میں کھلی آزادی اور اس کی فوج اور کرائے کے ملازموں کو قانون سے آزادی۔[19] اگر کٹھ پتلی عراقی حکومت نے چوں چراں کی تو امریکی بنکوں میں عراق کے 25 بلین ڈالر ہتھیا لیے جائیں گے۔[20] جون 2009ء میں امریکا نے اعلان کیا کہ وہ اپنی فوجیں عراقی شہروں سے "ہٹا" رہا ہے۔ ساتھ ہی عراقی تیل میدانوں کی مغربی کمپنیوں کو "نیلامی" کا فیصلہ بھی ہوا۔[21]

ماحولیاتی تباہی ترمیم

امریکی فوج کی جانب سے برسوں مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے ملک میں وسیع پیمانے پر نیوکلائی اور ریڈیائی تابکاری پھیلنے کی وجہ سے صحت عامہ پر شدید اثرات نمودار ہوئے ہیں۔[22]

  1. روزنامہ ڈان، 18 ستمبر2007، "Greenspan says Iraq war is ‘about oil’"
  2. WSWS, 19 ستمبر 2007ء، "From the horse’s mouth: Greenspan says Iraq war was for oil "
  3. WSWS، 29 ستمبر 2007ء، "The Bush-Aznar tapes: glimpse of a gangster preparing for war"
  4. Secret memos expose link between oil firms and invasion of Iraq (19 اپریل 2011ء)۔ دی انڈپنڈنت https://web.archive.org/web/20181225161747/https://www.independent.co.uk/news/uk/politics/secret-memos-expose-link-between-oil-firms-and-invasion-of-iraq-2269610.html۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اپریل 2011  مفقود أو فارغ |title= (معاونت)
  5. انڈیپنڈنٹ، برطانیہ، 17 ستمبر 2007ء، آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.independent.co.uk (Error: unknown archive URL) "Robert Fisk: It is the death of history "
  6. "Saddam's uranium headed for Ontario"۔ 16 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2008 
  7. WSWS, 31 جولائی 2007ء، ":Humanitarian disaster produced by US invasion Oxfam reports one-third of Iraqis in need of emergency aid "
  8. WSWS, 15 ستمبر 2007، "British polling agency: More than one million Iraqi deaths since US invasion "
  9. WSWS 13 نومبر 2004ء، "Iraq aflame over mass killings in Fallujah"
  10. WSWS 21 ستمبر 2007ء، "Charges dismissed against another officer in Haditha war crimes case"
  11. ورلڈ شوسلسٹ، 29 1گست 2008ء، "Military officers testify that US soldiers murdered Iraqi detainees"
  12. "Edward Snowden: the whistleblower behind the NSA surveillance revelations"۔ گارجین۔ 9 جون 2013ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  13. WSWS 29 مارچ 2008ء، "The sieges of Basra and Sadr City: another US war crime in Iraq"
  14. wsws، 3 اپریل 2010ء، "Former IAEA chief: Iraq war killed “a million innocent civilians”"
  15. بی بی سی ڈاٹ کام، "ابو غریب: احوال بتانے والے پر کیا گذری"
  16. "RAF helicopter death revelation leads to secret Iraq detention camp"۔ گارجین۔ 7 فروری 2012ء۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  17. WSWS,14 ستمبر 2007ء، "Bush calls for permanent US military occupation of Iraq in nationally televised address"
  18. wsws 18 دسمبر 2007ء، "Corporate oil giants scramble to plunder Iraq’s energy reserves"
  19. اندیپنڈنٹ، 5 جون 2008ء، "Revealed: Secret plan to keep Iraq under US control"
  20. xinhua, 6 جون 2008ء، " U.S. holds hostage Iraq's foreign reserves in military deal negotiations"
  21. wsws, 30 جون 2009ء، "Oil and the Iraq “withdrawal”"
  22. گارجین، 22 جنوری 2010ء، "Iraq littered with high levels of nuclear and dioxin contamination, study finds"