سنجوگیتا
سنجوگیتا - سئینوگیتا (وفات: 1192ء) دہلی اور اجمیر کے آخری ہندو حکمران پرتھوی راج چوہان کی بیوی اور قنوج کے حکمران جے چندر کی بیٹی تھی۔
سنجوگیتا | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | قنوج |
وفات | سنہ 1192ء دہلی ، سلطنت غوریہ |
طرز وفات | ستی |
شہریت | ہندوستان |
شریک حیات | پرتھوی راج چوہان (1185–1192) |
والد | جے چندر |
عملی زندگی | |
پیشہ | ملکہ |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمابتدائی حالات
ترمیمسنجوگیتا کے متعلق دہلی اور اجمیر کے مؤرخین خاموش ہیں۔ سنجوگیتا کے تفصیلی حالات یا ابتدائی حالات کے متعلق بھی شواہد اور تاریخ دستیاب نہیں ہے البتہ پہلی بار اِس کے بارے میں بارہویں صدی کے ایک بڑے ہندو شاعر چند باردئی نے اپنی شاعری کی تصنیف پرتھوی راج رس میں لکھا ہے۔ ابھی تک مؤرخین اور محققین کے لیے پرتھوی راج رس نامی کتاب کے علاوہ سنجوگیتا کے حالات زِندگی جاننے کے لیے کوئی دوسری کتاب یا ماخذ موجود نہیں ہے۔ سنجوگیتا کے متعلق تفصیل پرتھوی راج رس نامی اِس تصنیف میں قنوج کی تاریخ یعنی ’’قنوج کَھنڈ‘‘ میں ملتی ہے۔ قنوج کَھنڈ کے مطابق سنجوگیتا حَسِین خاتون تھی۔ شاعر مذکورہ (یعنی چند باردئی) اِس خاتون کو خوبصورتی کی بنا پر وشنو کا اوتار قرار دیتا ہے (یہ بات محض داستانِ شاعری کو خوب حَسِین ترین بنانے کے لیے شاعر کی مبالغہ آرائی پر مبنی ہے)۔ وہ حَسِین ہونے کے ساتھ ساتھ حُسن اِخلاق اور نیکی کے لیے اپنے عہد میں خواتین کی فہرست میں شمار ہوتی تھی۔ [1]
خاندانی تفصیلات
ترمیمدہلی اور اجمیر کا آخری ہندو حکمران (راجا) پرتھوی راج چوہان اور قنوج کا حکمران راجا جے چندر، دونوں راجپوت قوم سے تعلق رکھتے تھے مگر پرتھوی راج چوہان چوہان قوم کا سربراہ تھا اور جے چندر راٹھور قوم کا سربراہ تھا اور اِن دونوں میں نہایت دشمنی چلی آ رہی تھی۔ جب پرتھوی راج چوہان کی قسمت کا ستارہ چمکا تو اُس نے قدیم ہندو شاہی رسم اشومیدھ کیا اور خود حکمران بن گیا۔ 1185ء میں قنوج میں جب جے چندر نے راجاؤں اور شاہزادوں کو سنجوگیتا کی شادی کے لیے سوئمبر کی رسم میں مدعو کیا تو پرتھوی راج چوہان کو باوجود دشمنی کے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ چند باردئی نے لکھا ہے کہ پرتھوی راج چوہان بھی سوئمبر میں شرکت چاہتا تھا مگر باوجود دشمنی کے نہیں جاسکا تھا۔ جے چندر نے پرتھوی راج چوہان کا ایک سنہری مجسمہ بنوا کر دربار میں نصب کروا دیا تاکہ دوسرے راجاؤں کو بتایا جا سکے کہ میری دعوت کے باوجود پرتھوی راج چوہان اِس دعوت میں شریک نہیں ہوا۔سنجوگیتا نے اِس سے قبل پرتھوی راج چوہان کی دِلیری و بہادری کے قصے سن رکھے تھے، لہٰذا وہ سوئمبر کی رسم کے دوران پھولوں کی مالا پرتھوی راج چوہان کے مجسمے پر ڈال چکی اور اُسے بطور اپنا شوہر پسند کیا۔ پرتھوی راج چوہان کو جب معلوم ہوا تو اُس نے قنوج پر اپنے بہادر سرداروں سمیت حملہ کرکے سنجوگیتا کو اُس کے شاہی محل میں اُس کے باپ کے سامنے سے اُٹھا کر دہلی لے آیا۔ اِس دوران دہلی کے راستے میں پان روز تک لڑائی ہوتی رہی مگر پرتھوی راج چوہان نے اِس خاتون کو خود سے دور نہ ہونے دِیا۔ [2]
سنجوگیتا اور پرتھوی راج چوہان دہلی میں
ترمیمجب پرتھوی راج چوہان سنجوگیتا کو دہلی لے کر آیا تو اُس کا حُسن جمال ایسا غالب آیا کہ خود فریفتہ ہوکر رہ گیا کہ یہ کیفیت ایسی وارد ہوئی کہ سلطنت کے کاروبار سے بالکل غافل ہو گیا۔ ایک سال سے زائد عرصہ تک یہی حال رہا مگر جس وقت ایک غیر ملکی مسلم حکمران شہاب الدین محمد غوری ایک لشکر جرار کے ساتھ دہلی پر حملہ آور ہوا تو تب سنجوگیتا نے دِل فریبی کا جامہ چھوڑ کر مردانگی کا لباس پہنا اور اپنے شوہر کو گردابِ عیش سے نکالا اور اُسے قسم دے کر میدانِ کارزار میں بھیجنا چاہا۔ قسم دیتے ہوئے اُس نے کہا کہ: ’’میدانِ پیکار گرم کر، جس طرح ہو سکے، اپنے ملک کو مسلمانوں کی اِطاعت سے بچا۔ اور اگر کچھ نہ ہو سکے تو اپنی جان پر کھیل جانا کیونکہ نیک نام مرنے سے ہمیشہ آدمی زِندہ رہتا ہے۔ اِس چند روزہ ہستی کا کچھ خیال نہیں کرنا چاہیے۔ جا اور دشمن کو اپنی تلوار کے جوہر دِکھا۔دوسرے جنم میں بھی مَیں تیری بیوی ہوں گی۔‘‘[3]
1191ء میں پرتھوی راج چوہان شہاب الدین محمد غوری کے مقابلے میں میدان جِیت گیا تھا لیکن 1192ء میں شہاب الدین محمد غوری نے نئے لشکر کے ہمراہ دہلی پر لشکرکشی کردی۔ سنجوگیتا نے پرتھوی راج چوہان کو آلات حرب تھماتے ہوئے سورگ لَوک میں ملنے کے متعلق کہا جو بعد میں پورا ثابت ہوا۔ پرتھوی راج چوہان جنگ میں مارا گیا۔[4]
وفات
ترمیم1192ء میں پرتھوی راج چوہان کے قتل کی خبر جب سنجوگیتا نے سنی تو اُس نے فورا قدیمی رسم ستی کو اِختیار کر لیا اور سوائے پانی کے کوئی دوسرا اناج بطور غذاء کے اِستعمال نہ کیا۔ اُس نے دہلی میں مسلم لشکر کے داخل ہونے سے قبل خود کو آگ میں بیٹھ کر ستی کر لیا تھا۔