سُنِیتا کرشنن (پیدائش: 1972ء) ایک بھارتی سماجی کارکن اور پَرَجْوَلا نام کی غیر سرکاری تنظیم کی معاون بانی اور اعلٰی ترین عہدیدار ہے۔ یہ ادارہ جنسی تجارت سے متاثرہ افراد کو چھڑانے، بازآباد کرنے اور سماج میں ان کی دوبارہ سمولیت کو یقینی بنانے کا کام کرتا ہے۔[2]

سنیتا کرشنن

معلومات شخصیت
پیدائش 1972 (عمر 51–52 سال)
بنگلور، بھارت
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ جوزفز کالج، بنگلور، اسکول آف سوشیل ورک، مینگلور یونیورسٹی
پیشہ پرجولا کی بانی، حیدرآباد
وجہ شہرت سماجی کارکن، پَرَجْوَلا کی معاون بانی،
ایگ غیر سرکاری تنظیم جو جنسی ملازمین اور ان کے بچوں کی بازآبادکاری کے لیے کوشاں ہے۔.
اعزازات

کرشنن غیر انسانی بازارکاری اور سماجی پالیسی کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ اس کی تنظیم پَرَجْوَلا چُنگل سے چھڑائی گئی خواتین اور بچوں کو آسرا فراہم کرتی اور یہ ملک میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا آبادکاری کا گھر ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ غیر سرکاری تنظیمیں متحدہ طور پر حفاظتی اور بازآبادکاری خدمات خواتین اور بچوں کے لیے فراہم کریں جنہیں تجارتی جنسی استحصال کا حسہ بنایا گیا تھا۔[3] اسے بھارت کا چوتھا سب سے اعلٰی شہری اعزاز پدم شری سے 2016ء میں نوازا گیا تھا۔[4]

ابتدائی زندگی

ترمیم

کرشنن کا جنم بنگلور میں پالگھاٹ کے ملیالی ماں باپ راجو کرشنن اور نلنی کرشنن کے یہاں ہوا۔[5] وہ ملک کے بیش تر حصوں کی سیر کر چکی ہے کیونکہ اس کے والد سروے کے محکمے میں کام کر رہے تھے جو سارے ملک کے نقشے اتارتا ہے۔[6]

کرشنن میں سماجی کام کے جوش کا 8 سال کی عمر میں مظاہرہ ہوا جب وہ دماغی طور پر معذور بچوں کو رقص سکھا رہی تھی۔[7] 12 سال کی عمر میں یہ جھگی جھوپڑیوں میں غریب بچوں کے لیے اسکول چلا رہی تھی۔[7] 15 سال کی عمر میں جب یہ دلت طبقے کے لیے نوخواندگی کی مہم چلا رہی تھی، تب یہ آٹھ آدمیوں کی جانب سے اجتماعی آبروریزی کا شکار ہوئی تھی۔[8] یہ واقعہ کرشنن کو اس مقام تک رسائی کے لیے محرک بنا جس پر وہ آج کام کر رہی ہے۔[9]

کرشنن نے بنگلور اور بھوٹان میں مرکزی حکومت کے قائم کردہ اسکولوں میں پڑھائی حاصل کی۔ ماحولیات میں سینٹ جوزف کالج بنگلور بیچلرز کی تکمیل کے بعد کرشنن نے ایم ایس ڈبلیو (طبی اور نفسیاتی) روشنی نیلایا، مینگلور سے مکمل کیا۔[10]

حیدرآباد کی طوائفوں کی زبوں حالی اور باز آباد کاری

ترمیم

1996ء میں حیدرآباد، دکن کے پرانے شہر کا ریڈ لائٹ ایریا سمجھی جانے والی محبوب کی مہندی ریاستی حکومت کی جانب سے طوائفوں کو ہٹانے کا فیصلہ اچانک لیا گیا تھا۔ 400 سے 500 عورتوں کو گرفتار کرکے جیل میں رکھا گیا تھا۔ ان میں سے تقریبًا 20 عورتوں نے خود کشی کر لی تھی۔ کئی دن تک ان لاشوں کو بھی کوئی لینے نہیں آیا۔ ان کی تدفین ایک مسئلہ تھی۔ ایسے میں کشنن نے متاثرہ خواتین کو خود مکتفی بنانے کی مہم شروع کی۔ یہ مہم آگے چل کر 15000 خواتین کی زندگی سنورنے کے کام آئی۔[11]

سماجی میڈیا کی وجہ سے جنسی ہراسانی پر توجہ

ترمیم

سنیتا کرشنن نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ سوشیل میڈیا اور انٹرنیٹ جیسی ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال کے نتیجہ میں پیار و محبت، شادی اور دیگر کام کے نام پر کئی معصوم لڑکیاں اور خواتین جنسی ہراسانی اور ظلم و زیادتی کا شکار ہو رہی ہیں اور اکثر لڑکیاں اور خواتین جسم فروشی کے مافیا کی جانب سے استحصال کا شکار ہو رہی ہیں جس پر قابو پانا ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔[12]

حیدرآباد کی طوائفوں کی زبوں حالی اور باز آباد کاری

ترمیم

اعلٰی شہری اعزاز پدم شری حاصل کرنے کے علاوہ کرشنن کئی اور انعامات بھی حاصل کر چکی ہے۔ ان میں حیدرآباد کے نامور صحافی کی یاد میں 24 واں یدھ ویر فاؤنڈیشن میموریل ایوارڈ رکن پارلیمنٹ کے کویتا کی جانب سے 30 اپریل 2015ء کو شام 6 بجے کے ایل این پرساد آڈیٹوریم، فیاپسی بھون، ریڈہلز حیدرآباد میں منعقدہ ایک تقریب میں پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں کویتا نے خواتین کو بااختیار بنانے پر ایک لکچر بھی دیا۔ سنیتا کرشنن کے جملہ کارناموں میں قحبہ گری میں ملوث خواتین کی دوسری نسل کو دلدل سے نکالنے کے لیے ایک نکاسی مرکز کے طور پر 1996ء میں پرجولا نام کی اینٹی ٹریفکنگ آرگنائزیشن قائم کی۔ جس کا افضل گنج پولیس اسٹیشن میں پہلے کونسلنگ سنٹر کا آغاز کیا گیا۔ پرجولا کی کاوشوں کے نتیجہ میں متحدہ آندھرا پردیش حکومت نے 2003ء میں اینٹی ٹریفکنگ پالیسی کو اختیار کیا تھا۔ آج پر جولاکی جانب سے متاثرہ خواتین کو اخلاقی، مالی، قانون اور سماجی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سنیتا کرشنن کو متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈس حاصل ہوئے ہیں۔[13]

حوالہ جات

ترمیم
  1. https://www.india.com/entertainment/kbc-11-anushka-sharma-hails-karamveer-sunitha-krishnan-for-rescuing-human-trafficking-victims-3812758/ — اخذ شدہ بتاریخ: 2 جولا‎ئی 2020
  2. "Gang-rape survivor makes a film on her trauma, runs home for those exploited"۔ IBN Live۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-03-07
  3. "Sunitha Krishnan"۔ Ashoka India۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2002 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  4. "Laxma Goud gets long-overdue Padma"۔ دکن کرانیکل۔ 26 جنوری 2016۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-26
  5. "Keeping hope alive Real-life hero"۔ The Hindu۔ 30 جولائی 2009۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-10
  6. "Sunitha Krishnan"۔ Ashoka India۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2002 {{حوالہ ویب}}: تحقق من التاريخ في: |accessdate= (معاونت)
  7. ^ ا ب Jain، Sonam (30 جولائی 2011)۔ "She sets the bonded free"۔ The Hindu۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-07-10
  8. "The Ugly Truth: Has A Disha (Hope)"۔ Houston South Asian Lifestyle Society News۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-04-08
  9. "Woman of Steel"۔ The Herald of India۔ 2018-12-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-04-21
  10. "Woman of Steel"۔ The Herald of India۔ 2019-01-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-04-21
  11. کھوئی عزتِ نفس کی بازیفتگی ایک جنگ... ہزاروں خواتین کو راہ دکھانے والی جہد کار سنیتا کرشنن
  12. -غلط-استعمال-سے -خواتین-کا-753319/ سوشیل میڈیا کے غلط استعمال سے خواتین کا اِستحصال[مردہ ربط]
  13. ڈاکٹر سنیتا کرشنن کو یدھ ویر فاؤنڈیشن میموریل ایوارڈ[مردہ ربط]