سوامی ناراین

swaminarayan sampraday کے بانی

سوامی ناراین (3 اپریل 1781 – 1 جون 1830) یا سہجانند سوامی، ایک یوگی اور تارک الدنیا شخص تھے جن کی تعلیمات کے ذریعے ہندوؤں کے مرکزی عقائد دھرم،[2] اہنسا[3][4] اور برہماچاریہ دوبارہ رواج پائے۔[2] سوامی ناراین کے پیروکار ان کو بھگوان کا اوتار سمجھتے ہیں۔[5][6]

سوامی ناراین
شکشا پتری میں سوامی ناراین کی تصویر
ذاتی
پیدائش
گھن شیام پانڈے

3 اپریل 1781[1]
وفات1 جون 1830(1830-60-10) (عمر  49 سال)
گدھادا (موجودہ گجرات، بھارت)
مذہبہندومت
بانئسوامی ناراین سمپردائے
مرتبہ
گروسوامی رامانند

سوامی ناراین کا پیدائشی نام گھن شیام پانڈے تھا، وہ سنہ 1781ء کو چھپیہ، اتر پردیش، ہند میں پیدا ہوئے۔ سنہ 1792ء کو 11 سال کی عمر میں انھوں نے بھارت کی سات سالہ یاترا کا آغاز کیا اور ”نیل کنٹھ ورنی“ کا نام اپنایا۔ اس یاترا کے دوران میں انھوں نے فلاح و بہبود کا کام کیا اور لگ بھگ سنہ 1799ء کو یاترا کے 9 سال اور 11 ماہ بعد وہ ریاست گجرات میں بس گئے۔ سنہ 1800ء کو وہ اپنے گرو سوامی رامانند کے اودھو سمپردائے میں شامل ہو گئے اور ان کو گرو ن ”سہجانند سوامی“ کا نام دیا۔ سنہ 1802ء میں سوامی ناراین کے گرو نے اپنی وفات سے قبل اودھو سمپردائے کی قیادت ان کو سونپ دی۔ سہجانند سوامی ایک جماعت اکھٹا کر کے انھیں سوامی ناراین منتر سکھاتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ ”سوامی ناراین“ مشہور ہو گئے۔ اور اودھو سمپردائے کا نام ”سوامی ناراین سمپردائے“ مشہور ہو گیا۔

سوامی ناراین نے برطانوی راج کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے تھے۔[7][8] ان کے نہ صرف مختلف مکاتب فکر کے ہندو پیروکار تھے بلکہ کچھ مسلمان اور زرتشتی بھی ان کے پیروکار تھے۔ اپنی زندگی کے عرصے میں انھوں نے چھ مندر قائم کیے[9] اور اپنے فلسفے کی تبلیغ کے لیے 500 پرم ہنس مامور کیے۔[10] سنہ 1826ء میں سوامی ناراین نے ایک سماجی اصولوں کی کتاب ”شکشا پتری“ تحریر کی۔[11] انھوں نے 1 جون 1830ء کو گدھادا، گجرات میں وفات پائی اور ہندو رسوم کے تحت ان کا انتم سنسکار ہوا اور ان کی راکھ کو جھیل میں بہا دیا گیا۔ سوامی ناراین نے اپنی سے قبل اپنے دو سوتیلے بھتیجوں کو بطور آچاریہ مامور کیا تاکہ وہ سوامی ناراین سمپردائے (فرقے) کے علاقوں کی سربراہی کریں۔ سوامی ناراین خواتین[12] اور غریب،[13] کی اصلاح اور یگیوں (آگ کی قربانیوں) کو بڑے پیمانے پر کرنے کا بیڑا اٹھانے کے لیے سوامی ناراین سمپردائے (سوامی ناراین فرقہ) میں یاد کیے جاتے ہیں۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Williams 2001, p. 13 harvnb error: multiple targets (2×): CITEREFWilliams2001 (help)
  2. ^ ا ب Lindsay Jones (2005)۔ Encyclopedia of Religion۔ Farmington Hills: Thomson Gale۔ صفحہ: 8889۔ ISBN 0-02-865984-8 
  3. Raymond Brady Williams (2001)۔ An introduction to Swaminarayan Hinduism۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 173۔ ISBN 0-521-65422-X 
  4. Helen Elizabeth Meller (1994)۔ Patrick Geddes: social evolutionist and city planner۔ Routledge۔ صفحہ: 159۔ ISBN 0-415-10393-2 
  5. Hanna Kim (2010-02-19)۔ "Public Engagement and Personal Desires: BAPS Swaminarayan Temples and their Contribution to the Discourses on Religion"۔ International Journal of Hindu Studies (بزبان انگریزی)۔ 13 (3): 357–390۔ ISSN 1022-4556۔ doi:10.1007/s11407-010-9081-4 
  6. Lindsay Jones (2005)۔ Encyclopedia of religion۔ Detroit : Macmillan Reference USA/Thomson Gale, c2005.۔ صفحہ: 8890۔ ISBN 978-0028659824 
  7. ^ ا ب Sadhu Paramtattvadas، Raymond Brady Williams، Sadhu Amrutvijaydas۔ Swaminarayan and British Contacts in Gujarat in the 1820s۔ صفحہ: 58–93۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780199463749.003.0005۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  8. Brian A. Hatcher۔ Situating the Swaminarayan Tradition in the Historiography of Modern Hindu Reform۔ صفحہ: 6–37۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780199463749.003.0002۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  9. Rabindra Vasavada۔ Swaminarayan Temple Building۔ صفحہ: 257–273۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780199463749.003.0016۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  10. Manjukeshanand Swami (1831)۔ Paramhansa Namamala۔ Vadtal, India: Vadtal Swaminarayan Mandir 
  11. Vibhuti Parikh۔ The Swaminarayan Ideology and Kolis in Gujarat۔ صفحہ: 94–114۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780199463749.003.0006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 
  12. Suresh Raval (2012)۔ Renunciation, Reform and Women in Swaminarayan Hinduism۔ Ahmedabad, Gujarat, India: Shahibaug Swaminarayan Aksharpith 
  13. Sadhu Mangalnidhidas۔ Sahajanand Swami’s Approach to Caste۔ صفحہ: 115–128۔ doi:10.1093/acprof:oso/9780199463749.003.0007۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2018 

مآخذ

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم
سوامی ناراین سمپردائے
دیگر