سوبھو گیان چندانی
سوبھو گیان چندانی (پیدائش: 3 مئی 1920ء– وفات: 8 دسمبر 2014ء) برصغیر کے ممتاز ترین کمیونسٹ رہنما، مصنف اورمارکسیت کے مشہور سیاست دان تھے۔
سوبھو گیان چندانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 3 مئی 1920ء کراچی ، ڈوکری ، بمبئی پریزیڈنسی |
وفات | 8 دسمبر 2014ء (94 سال) لاڑکانہ ، پاکستان |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند (3 مئی 1920–14 اگست 1947) |
جماعت | کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان |
عملی زندگی | |
تعلیمی اسناد | فاضل القانون |
پیشہ | مصنف ، سیاست دان |
پیشہ ورانہ زبان | سندھی |
تحریک | مارکسیت |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمپیدائش
ترمیمسوبھو گیان چندانی کاپیدائشی نام سوبھ راج تھا۔ لیکن وہ سوبھوگیان چندانی کے نام سے مشہور ہوئے۔
سوبھو گیان چندانی کی پیدائش 3 مئی 1920ء کو موہنجوداڑو سے پانچ کلومیٹر شمال کی جانب ایک چھوٹے سے گاؤں ’’گوٹھ بِندی‘‘ میں ہوئی۔ گوٹھ بِندی دریائے سندھ کے عین ساحل پر آباد پچاس ساٹھ گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس کے جنوب میں ڈوکری شہر بمشکل سات کلومیٹر کے فاصلہ پر آباد ہے۔
خاندان
ترمیمسوبھوگیان کا خاندان اولاً انیسویں صدی عیسوی میں کنڈیارو میں آباد تھا۔ پہلے پہل سوبھو کے سگھڑدادا گیان چند جی گاؤں کے سرپنچ اور دوسرے معززین کی دعوت پر کنڈیارو سے نقل مکانی کرکے اپنے خاندان سمیت گوٹھ بِندی آکر آباد ہوئے۔ گیان چند کے چار بیٹے تھے : روپ چند، پربھ داس، پارو مَل اور جیوت رائے۔ کنڈیارو سے نقل مکانی کرکے بِندی میں آباد ہونے کا مقصد یہ تھا کہ اُس دور اُفتادہ گاؤں اور آس پاس کی بستیوں میں رہنے والوں کے لیے روزمَرہ ضروریاتِ زندگی اور دیگر اسبابِ تجارت کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے کیونکہ یہ علاقے عام گذرگاہوں سے الگ تھلگ اور کافی فاصلے پر واقع تھے اور عام آدمی کے لیے ضروریاتِ زندگی کی دستیابی آسان نہ تھی۔ دور دور تک پنسار کا کاروبار کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ’’بِندی‘‘ گوٹھ دراصل ساریہ خاندان کے مسلم گھرانوں کی بستی تھی۔دو چار ہندو خاندان ہی آباد تھے۔ گیان چند کے گھرانے کی آمد کا گاؤں الوں نے نہ صرف استقبال کیا بلکہ گاؤں کے وڈیرے اور سرپنچ (مُکھیا) نے انھیں رہائش کے لیے چند ایک کوٹھڑیاں ڈال دی تھیں جس میں انھوں نے شروع شروع میں ایک چھوٹی سی پنساری کی دکان قائم کی۔ اُس زمانے میں اشیائے ضروریہ کو صرف اہم تجارتی شہروں اور قصبوں ہی سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اُس زمانے میں شمال میں شکارپور اور چانڈکا (یہ پورا علاقہ بشمول لاڑکانہ پہلے اِسی نام سے موسوم تھے) شہر واقع تھے۔ جنوب میں خُلد آباد (موجودہ خداآباد) اور سیہون وغیرہ اہم تجارتی مراکز ہوا کرتے تھے۔ تالپروں کے عہد میں لاڑکانہ شہر ابھی آباد ہی ہو رہا تھا۔ رفتہ رفتہ گیان چند کے بعض لوگوں نے ساہوکاری کا کام شروع کر دیا جو سندھ کے ہندو بپاریوں کا مقبول ترین پیشہ تھا، یعنی وہ ضرورت مندوں کو سُود پر قرض کی فراہمی کیا کرتے تھے۔[1]
سوبھو کے دادا پربھ داس تھے جن کے دو بیٹے تھے: ٹانور مَل اورکِھلن داس۔ سوبھو کے والد کی سات اولادیں پیدا ہوئیں: کلیانی (بیٹی)، کیول رام (بیٹا)، سوبھ راج (سوبھو گیانی، بیٹا)، پرمیشوری عرف پمی (بیٹی)، خوب چند عرف بھائی (بیٹا)، وِدھیا (بیٹی)، ساوِتری (بیٹی)۔ اِن میں وِدھیا کم عمری میں ہی بیوہ ہو گئی تھی اور ہندوستان میں اپنے سسرال کے یہاں مقیم رہی۔ ساوِتری بھی اپنے شوہر کے ہمراہ ہندوستان آباد ہو گئی تھی۔ سوبھو کا چھوٹا بھائی خوب چند جواں عمر میں فوت ہوا اور پرمیشوری عرف پمی، کیول رام اور کلیانی بھی سوبھو کی زندگی میں ہی فوت ہوئے۔ کیول رام سے سوبھو کو ہمیشہ بڑی تقویت حاصل رہی۔[2]
مذہب
ترمیمسوبھوگیان کا خاندان سکھ مت کے بانی گرو نانک کا ماننے والا ہے اور یہ لوگ نانک پنتھی کہلاتے ہیں۔ سکھ مت کے مُرَّوجہ عقائد کے مطابق نہ تو یہ داڑھی رکھتے ہیں اور نہ کرپان‘ کڑا اور نہ کیس وغیرہ کے عقیدے کو اپنے لوازمات میں شمار کرتے ہیں۔ بلکہ اِن لوگوں کے ہاں عام طور پر سبھی مذاہب کی اخلاقی اقدار کی پاسداری کا اہتمام پایا جاتا ہے۔البتہ ہندو صنم پرستی جیسے عقائد نانک پنتھیوں کے یہاں پائے جاتے تھے جن کی اکثریت سندھ میں آباد تھی۔[3]
وفات
ترمیمسوبھو گیان چندانی وفات سے قبل طویل علالت میں مبتلاء رہے۔ طویل علالت کے سب بروز پیر 8 دسمبر 2014ء کی صبح سوبھو کی طبیعت مزید خراب ہو گئی تو انھیں چانڈکا ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا کہ راستے میں ہی اِنتقال کرگئے۔ بوقت وفات سوبھو کی عمر 94 سال تھی۔[4]
مزید دیکھیے
ترمیمکتابیات
ترمیم- سید مظہر جمیل: سوبھو گیان چندانی، شخصیت اور فن، مطبوعہ اکادمی ادبیاتِ پاکستان، اسلام آباد، 2006ء
حوالہ جات
ترمیم- ↑ سوبھو گیان چندانی، شخصیت اور فن، صفحہ 13۔
- ↑ سوبھو گیان چندانی، شخصیت اور فن، صفحہ 14۔
- ↑ سوبھو گیان چندانی، شخصیت اور فن، صفحہ 15/16۔
- ↑ "ڈان نیوز: نامور شہرت یافتہ مارکسیت پرست قوم پرست رہنما سوبھو گیان چندانی انتقال کرگئے۔"۔ 8 دسمبر 2014