سپر نووا

ہمارے سورج سے دس گنا زائد کمیت والے ستارے کے پھٹنے کے عمل کو کہتے

سپرنووا ہمارے سورج سے دس گنا زائد کمیت والے ستارے کے پھٹنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ تمام ستاروں کی ایک معینہ مدت یا عمر ہوتی ہے۔ وہ پیدا ہوتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ چھوٹے ستاروں کی عمر زیادہ لمبی ہوتی ہے جبکہ بڑے ستاروں کی عمر کم ہوتی ہے اور وہ جلدی مر جاتے ہیں۔ ہمارے سورج کی ابھی عمر لگ بھگ پانچ ارب سال ہے اور مزید پانچ ارب سال بعد یہ سورج فنا ہو جائے گا۔ ستارے کی موت کا مطلب یہ ہے کہ نیوکلیائی گداخت (نیوکلیئر فیوژن) کا عمل رک جاتا ہے اور اس سے توانائی (روشنی) خارج ہونا بند ہو جاتی ہے۔ اپنی زندگی کے اختتام پر ہمارا سورج پہلے بہت زیادہ پھیلے گا اور اپنی فضا کھو دے گا۔ صرف اس کا اندرونی قلب باقی رہ جائے گا جو جسامت میں ہماری زمین کے برابر ہوگا۔ لیکن ہمارا سورج سپر نووا کی موت نہیں مرے گا بلکہ سفید بونے میں تبدیل ہو جائے گا۔

ایک ہی کہکشاں میں SN 2007ck اور SN 2007co

وہ ستارے جو ہمارے سورج سے بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں، ان کا اختتام زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔ اس زبردست موت کے دوران وہ ہمارے سورج سے سو ارب گنا زیادہ روشنی خارج کرتے ہیں۔ ایسے ستاروں کی موت کو سپر نووا (supernova) کہتے ہیں۔

تاریخ

ترمیم

لگ بھگ ہزار سال قبل 1054ء میں چین کے ہیت دانوں نے اپنی کتابوں میں آسمان پر ایک ایسے نئے ستارے کے بارے میں لکھا جو رات کو انتہائی روشن تھا اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی نظر آتا تھا اور کئی ہفتوں تک نظر آتا رہا پھر غائب ہو گیا۔ آسمان کے نقشے پر جو جگہ انھوں نے درج کی تھی اب وہاں کریب نیبولا (Crab Nebula) نظر آتا ہے جو کسی مردہ ستارے کی باقیات ہیں۔ اس کے عین مرکز میں صرف 30 کلومیٹر چوڑا ایک مرکزہ ہے جو Crab Pulsar کہلاتا ہے۔ یہ ایک نیوٹرون ستارہ ہے اور یہ سورج سے دیڑھ گنا زیادہ بھاری ہے۔[1]

 
لگ بھگ ہزار سال قبل زمین سے 6500 نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارہ سپر نووا کی شکل میں پھٹا تھا۔ اب دوربین سے اس کی باقیات کریب نیبولا کی شکل میں نظر آتی ہیں۔

ہائیپر نووا

ترمیم

اگر کسی ستارے کی کمیت ہمارے سورج سے 150 گنا زیادہ ہو تو وہ بڑی جلدی اپنی عمر پوری کر کے ایک بھیانک دھماکے سے پھٹتا ہے جسے ہائیپر نووا (hypernova) کہتے ہیں۔ لگ بھگ دس سیکنڈ میں ہائیپر نووا سے اتنی توانائی خارج ہوتی ہے جتنی ہمارا سورج دس ارب سالوں میں کر سکتا ہے۔ ایسے ہائیپر نووا سے انتہائی طاقتور ایکس رے (X-ray) کی شعاعیں بھی نکلتی ہیں جنہیں gamma-ray bursts (GRBs) کہتے ہیں۔ یہ قریب و جوار کے سیاروں میں موجود زندگی کو ختم کر سکتی ہیں۔ اگر ہماری دنیا سے 7500 نوری سال کے فاصلے پر کوئی ہائیپر نووا پھٹے تو دنیا میں رات کو دن جیسی روشنی ہو جائے اور ایکس ریز کی وجہ سے قیامت آ جائے۔
کسی کہکشاں میں ہائیپر نووا پھٹنے کے امکان بہت ہی کم ہوتے ہیں یعنی ایک لاکھ سے دس لاکھ سال میں صرف ایک ہائیپر نووا پھٹتا ہے۔ مگر چونکہ کائنات میں اربوں کہکشائیں موجود ہیں اس لیے لگ بھگ ہر رات کو ایک ہائیپر نووا کا مشاہدہ ہوتا ہے جو بہت ہی دور دراز واقع کہکشاوں میں ہوتے ہیں۔[2]

گاما ریز برسٹ

ترمیم

آسمان پر کائنات سے آتی ہوئی گاما ریز چند ملی سیکنڈ سے کچھ گھنٹوں تک جاری رہتی ہیں۔[3] ان کو دو درجوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
پہلی قسم میں دو نیوٹرون ستارے باہم ٹکرا کر ایک دوسرے میں ضم ہو کر بلیک ہول بناتے ہیں اور اس عمل کو کلو نوا (kilo nova) کہتے ہیں۔ ایسے موقع پر گاما ریز کا اخراج دو سیکنڈ سے کم مدت میں ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اسے short gamma rays burst (SGRB) کہتے ہیں۔ کلو نوا نظر آنے والی روشنی کے مقابلے میں انفراریڈ زیادہ خارج کرتا ہے۔
دوسری قسم میں گاما ریز کا اخراج دو سیکنڈ سے زیادہ مدت تک جاری رہتا ہے۔ اس لیے اسے long gamma rays burst (LGRB) کہتے ہیں۔ اس کی دو وجہ ممکن ہیں۔ پہلی جب ایک بہت زیادہ کمیت رکھنے والا ستارہ اپنی عمر پوری کر کے پھٹتا ہے اور اس کا اندرونی حصہ پچک کر بلیک ہول یا نیوٹرون ستارہ بناتا ہے تو دو سیکنڈ سے زیادہ عرصے تک گاما ریز خارج ہوتی ہیں۔ اسے سپر نوا کہتے ہیں۔ ہماری کہکشاں milky way میں سو سالوں میں یہ دو یا تین دفعہ ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری وجہ ایک بلیک ہول کا کسی دوسرے بلیک ہول یا نیوٹرون ستارے سے ٹکرا کر باہم ضم ہو جانا ہے۔

11 دسمبر 2021ء میں سائنسدانوں نے آسمان پر پہلی دفعہ یہ مشاہدہ کیا کہ گاما ریز کا برسٹ 50 سیکنڈ تک جاری رہا جبکہ دوسری ساری علامات سپر نوا کی بجائے کلو نوا کی تھیں۔ پچھلے 50 سالوں میں ایسا منظر کبھی کسی نے نہ دیکھا تھا۔ اس واقعہ کو GRB211211A کا نام دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کا دنیا سے فاصلہ ایک ارب نوری سال ہے۔[4]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم