11 تا 31 جنوری 1894 ءکا یادگار سفرنامہ ہے، یہ سفرنامہ دہلوی تہذیب وتمدن اور آثار قدیمہ کے تعلق سے نہایت قیمتی اور معلوماتی ہے۔[1]

تعارف

ترمیم

سیرِ دہلی معروف صوفی شاعر حضرت شاہ اکبرداناپوری کے 12 روزہ یعنی 11 جنوری تا 31 جنوری 1894 ءکا سفرنامہ ہے جو بنیادی  طور پر نجیب جنگ کے پردادا مولانا محمد سمیع اللہ  سی، ایم، جی کے بڑے صاحبزادے سربلندجنگ بہادر مولانا محمدحمیداللہ کی تقریبِ شادی خانۂ آبادی کے موقع پر لکھا گیا ایک روز نامچہ ہے، یہ شادی محبوب علی خاں کے معتمدِپیشی اور استادِخاص سرور الملک آغا مرزابیگ کی صاحبزادی سے طے پایا تھا، یہ دونوں خانوادہ ہندوستان میں اُس وقت اپنی ایک نمایاں شان رکھتا تھا۔[2]

کہاجاتاہے کہ حضرت شاہ اکبر داناپوری معمول کے مطابق روز نامچہ لکھا کرتے تھے، یہ روزنامچہ بھی حسبِ معمول لکھا گیا اور دہلی کے سفر کی واپسی پرآگرہ میں جب ان کے مریدین ومعتقدین کی نظر سے یہ روزنامچہ گزراتوآپ سے فرمائش ظاہر کی کہ اس کو سفرنامہ کے طور پر شائع کرا دیا جائے،چنانچہ مولانا محمد سمیع اللہ نے جب مطالعہ کیاتو طباعت کی خواہش ظاہرکی،لہٰذاحضرت اکبر نے سرسری نظرِثانی کے بعد طباعت کی اجازت دے دی۔[3]

سیرِ دہلی تین حصوںپر منقسم ہے،پہلاحصہ شادی کا تذکرہ ہے، دوسرا معاصرین سے ملاقات اور تیسرا دہلی کی مساجد،مزارات، خانقاہیں، شاہی عمارات اور کچھ کھنڈر کا ذکر ملتا ہے، اسی درمیان کئی جگہ تاریخ کے واقعات،نقش و نگار کا تقابلی جائزہ،سفر کی برکتیں،سفر کے فائدے، سلسلۂ سہروردیہچشتیہ ابوالعُلائیہ مجددیہ کاتذکرہ، والیانِ حکومت اورعوام کے اندرپنپنے والی غلطیوں کی اصلاح،مسلمانوں کے اندرتعلیمی ماحول کا شعور اور اس کے اسباب وعلل،اردوزبان کی بنیاد اور شعرا کا حال و احوال،فتح پوری بیگم مسجد کا مدرسہ ، ان کے طلبہ کا حال،مولاناعبدالحق حقانی ودیگراساتذہ کی تنخواہیں،حیدرآباد کے نوابین کا تذکرہ، محبوب علی خاں کی تختِ نشینی پر قطعۂ تاریخ،سہرے،نظموں اور غزلوں کا ایک خوبصورت مرقع ہے، اسی درمیان میں’’شہرِآشوبِ دہلی‘‘ اور’’کشتیٔ اسلام‘‘کے عنوان سے طویل نظم بھی ہے۔[4]

کتاب کاآغاز بعدحمد واجب الوجود خواجہ ابو سعیدابوالخیرکی رباعی سے ہوتا ہے، ابتدائیہ صفحات پر دنیا کی سیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھروطن کی معنوی حیثیت بتائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سفر کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل کسی جگہ سے خاص تعلق پیدا نہیں کرتا، روزانہ کے سفر سے دنیا سرائے فانی معلوم ہونے لگتی ہے، پوری کتاب قرآنی آیات،احادیثِ کریمہ اور صوفیانہ خیالات کی ترجمان ہے،وطن کی محبت ایک سخت محبت ہے،خود حضرت اکبر کا گھرانہ سلسلۂ ابوالعلائیہ سے معمور رہا ہے، ان کے یہاں تو سفر در وطن کی تعلیم ہی دی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر اللہ والے سفر کرتے اور ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچتے ہیں اور اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا مشاہد ہ کرتے ہیں، پھر اپنے جذبات و تاثرات کا اظہار 91قافیہ بند شہرِآشوبِ دہلی کے عنوان سے کیا ہے، دہلی کی تباہی و بربادی پر 1882ء میں’’فغانِ دہلی‘‘کے عنوان سے ایسی شاعری کا مجموعہ مرتب ہوا جس میں اہلِ دل خون کے آنسو روتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،حضرت اکبرکا یہ شہرِآشوب ہر لحاظ سے دہلی مرحوم کا ایسا مرثیہ ہے جو بیشتر زعمائے عہدکی ایسی شاعری پر اپنی اندوہ گینی اور اثر آفرینی کے لحاظ سے فوقیت کا حامل ہے،اس طویل نظم میں نہ صرف دہلی بلکہ لکھنؤ اور کلکتہ کی بربادی کا بھی ذکر ہے، 11تا 31جنوری کا یہ سفرنامہ  18تا 24بارش کی وجہ سے نہیں لکھا گیا جبکہ 27تا 28کو نہ لکھنے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی، لہٰذا ہم اسے 12 روزہ سفرنامہ کہیں گے۔[5]

مختلف اشاعتیں

ترمیم

104 صفحات پر مشتمل یہ سفرنامہ نہایت مفید اور معلوماتی ہے، اب تو اس سفرنامہ کو تاریخی اہمیت بھی حاصل ہے،مطبع ریاضِ ہند، آگرہ سے بڑی تقطیع پر پہلی مرتبہ  1311ھ میں محمدعنایت خاں نے شائع کیا اور دوسری اشاعت 2011 ءمیں دہلی یونیورسیٹی کے شعبۂ اردو سے 112 صفحات پر گولڈن جوبلی کے موقع پر پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ترتیب دیا، ابھی حال میں مجلسِ ادبیاتِ عالیہ(واٹس ایپ گروپ) نے بھی ماہِ ستمبر 2021ءمیں آن لائن جاری کیاہے، حالیہ دنوں میں سیرِ دہلی کا چوتھا ایڈیشن خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ سے شائع کیا گیا ہے جس کے مرتب ریان ابوالعلائی ہیں، فہرست یوں ہے۔[6]

حوالہ جات

ترمیم
  1. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  2. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  3. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  4. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  5. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ 
  6. شاہ اکبر داناپوری (2022)۔ سیر دہلی۔ خانقاہ سجادیہ ابوالعلائیہ