شریف الحق امجدی

مشہور ہندوستانی فقیہ و شارح بخاری

شریف الحق امجدی اہل سنت کے ممتاز علما میں سے ہیں اور اپنی دینی خدمت نزھۃ القاری شرح صحيح البخاري کی وجہ سے اپنے مکتب فکر کے افراد میں شارح بخاری کے لقب سے مشہور ہیں۔

شارح بخاری
شریف الحق امجدی
پیدائششریف الحق
1340ھ بمطابق 1921ء
گھوسی، مئو
وفات1421ھ بمطابق 2000ء
گھوسی، مئو
قومیتہندوستانی
عہدبیسویں صدی
پیشہعالم دین
مذہباسلام
فرقہاہل سنت
فقہحنفی
مکتب فکربریلوی
تحریکبریلوی
کارہائے نماياںشرح صحیح البخاری
اساتذہمصطفی رضا خان امجد علی اعظمی عبد العزیز مراد آبادی محمد سردار احمد قادری حشمت علی خان
سلسلۂ تصوفسلسلۂ رضویہ امجدیہ
پیر/شیخامجد علی اعظمی

ولادت و تعلیم

ترمیم

موصوف قصبہ گھوسی مئو، اترپردیش کے ایک دیندار خاندان میں 1340ھ بمطابق1921ء میں تولد ہوئے۔ ناظرہ اور ابتدائی تعلیم قصبے ہی کے مکتب میں پائی، بعد امجد علی اعظمی صاحب کے منجھلے بھائی سے فارسی پڑھی۔ پھر جامعہ اشرفیہ میں برائے حصول تعلیم داخل ہوئے اور یہاں ہدایہ، ترمذی، صدر اور حمد اللہ تک پڑھا۔ اس کے بعد کچھ ماہ میرٹھ میں تعلیم حاصل کی اور اخیر میں دار العلوم مظہر اسلام بریلی میں داخلہ لیا، یہاں محمد سردار احمد قادری صاحب سے صحاح ستہ پڑھ کر دورہ حدیث کی تکمیل کی اور یہی سے سند فراغت حاصل کی۔

بیعت و خلافت، اجازات و اسانید

ترمیم

موصوف نے محمد امجد علی اعظمی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی اور خلافت سے بھی نوازے گئے، انھیں کی نسبت سے ہی امجدی کہلاتے ہیں۔مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں صاحب بریلوی سے سلاسل قرآن مجید و احادیث اور سلاسل اولیاے کرام ملے۔

خدمات

ترمیم

تدریس: شریف الحق امجدی صاحب نے 1943ء تا 1976ء مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ فتوی نویسی: موصوف کی فقہی بصیرت کا زمانہ معترف تھا۔ فقہی جزئیات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اختلافی مسائل میں ہمیشہ اعتدال سے کام لیا۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں دارالافتاء کا قیام موصوف نے ہی کیا۔ اپنی زندگی میں تقریباً ستر ہزار فتاوی تحریر کیے۔ تصانیف: (1) اشک رواں (2) السراج الکامل (3) تحقیقات (4) اسلام اور چاند کا سفر (5)منصفانہ جائزہ (6) نزھۃ القاری شرح صحيح البخاري. یہ ان کی مایہ ناز تصنیف ہے جو نو جلدوں پر مشتمل ہے۔

مفتی شریف الحق امجدی ایک خطیب بھی تھے، انھیں زبان و بیان کی زبردست قوت عطا ہوئی تھی۔ تقریر بڑی مفصل مدلل ہوا کرتی تھی، سامعین کو ان کی تقریر سے کبھی بوریت محسوس کرتے نہیں دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ موصوف فن مناظرہ پر کامل دسترس رکھتے تھے۔ متعدد مناظرے بھی کیے۔

وفات

ترمیم

6 صفر 1421ھ مطابق 2000ء بروز جمعرات کو جامعہ اشرفیہ میں وفات ہوئی۔ اپنے وطن گھوسی میں مدفون ہیں۔[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. حیات حافظ ملت: تلامذہ، ص: 146 تا 153