شمسِ تبریز خاں قاسمی (1945ء - 2013ء) ایک عالم دین، مصنف، محقق، ادیب، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے سابق رفیق اور لکھنؤ یونیورسٹی میں ادب عربی کے پروفیسر تھے۔

شمس تبریز خاں قاسمی
معلومات شخصیت
پیدائش 17 جون 1945ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہار   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 جنوری 2013ء (68 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ولادت اور تعلیم

ترمیم

شمسِ تبریز خاں بن فخر الدین احمد خاں کی ولادت صوبہ بہار کے ضلع آرہ کے بھوج پور میں 17/جون 1945 مطابق 15/شعبان 1364ھ کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ حنفیہ فرقانیہ،گونڈا میں حاصل کی اور متوسط واعلیٰ تعلیم دار العلوم دیوبند میں جہاں وہ 22/شوال 1380ھ (12/مارچ 1960/) کو داخل ہوئے اور شعبان 1384ھ (نومبر 1964/) میں دار العلوم سے فراغت حاصل کی۔[1]

تصنیف و تالیف کے میدان میں

ترمیم

دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 3/اگست 1968/ (6/جمادی الاُخری 1388ھ) تا 14/جنوری 1987/ (17/جمادی الاُخری 1407ھ) مجلسِ تحقیقات ونشریاتِ اسلام ندوة العلماء لکھنوٴ میں بہ حیثیت علمی رفیق، تالیفی وتصنیفی ذمے داریاں انجام دیں۔ اس کے بعد 15/جنوری 1987ءتا وفات 19/جنوری 2013ء لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہٴ عربی میں پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے۔ نور عالم خلیل امینی لکھتے ہیں:

وہ دارالعلوم دیوبند کے اپنے معاصر فضلا میں اردو زبان وادب پر عبور کے حوالے سے خاصے ممتاز تھے۔ اردو میں ان کا اُسلوبِ نگارش علامہ شبلی نعمانی (1274ھ/1857/- 1332ھ /1914/) کے باوقار اسلوب اورمولانا عبدالماجد دریاآبادی (1310ھ /1892/-1399ھ/ 1978/) کے شان دار اسلوب کا مخلوطہ تھا، وہ مُسْتَحْکَمْ، صحیح، خوب صورت، حشووزوائد سے پاک، ادبی مٹھاس سے لبریز اور زبان وبیان کے معیار پر ہر طرح صحیح اُترنے والی اردو نثر لکھتے تھے۔ اِسی کے ساتھ وہ عربی سے اردو میں ترجمہ کرنے والے فن کار اورماہر مترجم تھے۔ عموماً اچھے اہلِ قلم اچھے مترجم اور اچھے مترجم لائقِ ذکر اہلِ قلم نہیں ہوتے، بالخصوص ادبی وفکری زبان کا اُسی طرح کی ادبی وفکری زبان میں ترجمہ اور بھی مشکل کام ہے، جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتا ہے۔ [1]

تصنیفات و تالیفات

ترمیم

انھوں متعدد کتابیں لکھیں اور بہت سی کتابوں کا عربی سے اردو ترجمہ کیا، جن میں سے اہم مندرجہ ذیل ہیں:

تصنیفات

ترمیم

تراجم

ترمیم
  • ترجمہ از عربی کتاب ”اِقْتِضَاءُ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِیمِ“ تالیف شیخ الاسلام ابن تیمیہ بہ عنوان ”اسلامی وغیر اسلامی تہذیب“
  • ترجمہ از عربی کتاب ”رَوَائِعُ اقْبَال“ تالیف سید ابوالحسن علی ندوی، بہ عنوان ”نقوشِ اقبال“
  • ترجمہ از عربی کتاب ”مسیحیت“ مؤلفہ متولی یوسف چلپی[1]

وفات

ترمیم

ان کی وفات بہ وقتِ ظہر شنبہ 6/ربیع الثانی 1434ھ مطابق 19/جنوری 2013ء کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہوئی۔ ان کی نماز جنازہ شنبہ - یک شنبہ: 6-7 ربیع الثانی 1434ھ 19-20 جنوری 2013ء کی درمیانی شب میں، اُن کے مکان واقع ”مدح گنج“، لکھنؤ کے قریب میدان میں سعید الرحمن اعظمی ندوی نے پڑھائی اور محلہ ”کھدرا“ کے قبرستان ”تکیہ تارن شاہ“ میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔[1]

اعزاز

ترمیم

عربی زبان کی مہارت پر انھیں بھارت کے صدر جمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔[1]

حوالہ جات

ترمیم